دلچسپ اور اچھی کتابوں کا فقدان نہیں ہے فقدان ہے تو پڑھنے والوں کا، مطالعہ کرنے والوں کا اور لطف اندوز ہونے والوں کا۔ جب سے یہ ’’جدید‘‘ دور شروع ہوا ہے یعنی فلمیں، قطعی غیرفطری، مشینوں کی طرح دیو ہیکل روبوٹس، اُڑن کھٹولے، عجب غیر قدرتی ہتھیار تو انھوں نے نہ صرف نوجوانوں کو بلکہ بڑے لوگوں کو بھی اپنے قابو میں کرلیا ہے۔ اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اس قسم کی غیرفطری، فضول سی فلمیں اربوں روپیہ فی ہفتہ کما لیتی ہیں۔ مغربی ممالک میں تو ایک اچھا بڑا طبقہ اب بھی کتابوں کے مطالعہ کا شوقین ہے اور وہاں اچھی کتابیں بہت جلد ’بیسٹ سیلر‘ بن جاتی ہیں اور مصنف کروڑ پتی بن جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اچھی سے اچھی کتاب ہزار سے دو ہزار تک چھپتی ہے اور مصنف کو یہ کتابیں بھی دوستوں کو تحفہ میں دینا پڑتی ہیں۔ ہمارے لاتعداد اعلیٰ مصنف، ادیب، شعراء اپنی محنت کے پھلوں سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے۔ پرانے زمانے میں جب الیکٹرانک، موبائلز اور کمپیوٹرز نے ہماری زندگی پر قبضہ نہیں کیا تھا تو ہم بہت شوق سے کتابیں پڑھتے تھے اور دوست آپس میں اپنی پڑھی ہوئی کتب پر تبصرہ کرتے تھے۔ ہر علاقہ میں لائبریریاں تھیں اور آپ روز ہی کتاب تبدیل کرسکتے تھے۔ ابن صفی کی کتاب آنے سے پیشتر قطار لگ جاتی تھی۔
میں دراصل یہ تمہید اس لئے باندھ رہا ہوں کہ پچھلے دنوں طبیعت کی ناسازی نے دوسری مصروفیات سے دور رکھا اور ایک نہایت ہی اعلیٰ کتاب پڑھنے کا موقع ملا۔ کتاب کا نام ہے Meetings with Remarkable Muslims اس کتاب کو Barnaby Rogerson اور Rose Baring نے ایڈٹ کیا ہے۔ نہایت ہی دلچسپ کتاب ہے اور نہایت غیرمعمولی عام شخصیات سے ملاقاتوں پر مصنفین نے اپنے تاثرات بیان کئے ہیں۔
دراصل اس کے ٹائٹل پر ایک مسجد کی تصویر اور ایک امام ،نہایت خاص طرز کے مالین لباس (تواریگ لباس میں) ، کی تصویر موجود تھی۔ یہ تصویر دیکھ کر میری جستجو بڑھی اور کتاب خرید لی، اس تصویر کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ مالی کے شہر گائو کی مسجد اور اِمام کی ہے۔ یہ دیکھ کر روح پھڑک اُٹھی۔ میں اپنے چند عزیز رفقائے کار کے ساتھ چار مرتبہ ٹمبکٹو گیا تھا۔ یہ ایک تاریخی شہر ہے اور مالی کے شمال میں واقع ہے۔ قدیم زمانہ میں شمال سے قافلے کپڑا، نمک اور دوائیں وغیرہ لے کر ٹمبکٹو آتے تھے اور اس سامان کے بدلہ سونا، چاندی وغیرہ لے جاتے تھے۔ ایک وقت یہاں کی اسلامک یونیورسٹی میں 25 ہزار ملکی اور غیرملکی طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے۔دریائے نائیجر گنی سے نکل کر شمال کی جانب مالی میں بہتا ہوا شمال میں ٹمبکٹو جاتا ہے، وہاں سے مشرق کی جانب مڑ کر جنوب کا رُخ اختیار کرتا ہے۔ ٹمبکٹو کے بعد پہلا درمیانی سائز کا شہر گائو (Gao) ہے یہ خوبصورت پرانے وضع کا شہر ہے۔ ہم ایک مرتبہ سوڈان سے چھڈ اور وہاں سے گائو میں رُکے تھے۔ یہاں کے ایک بزرگ جلاوطن ہو کر مراکو میں رہائش پذیر ہوگئے، احمد بابانام تھا اور ان کے نام سے ٹمبکٹو میں اعلیٰ انسٹی ٹیوٹ ہے جو جنوبی افریقہ کی حکومت نے بنایا ہے اور اس میں بارہ سو ، تیرہ سو سال پرانے دستی نسخہ جات حفاظت سے رکھے ہوئے ہیں۔ ہم نے خود مغرب میں اس علاقہ پر شائع چند اعلیٰ کتب خرید کر دی تھیں۔ احمد بابا نے یہ شعر کہا تھا(ترجمہ)
گائو جانے والے ٹمبکٹو کو مڑ جانا ذرا
ہوں وہیں کا رہنے والا، نام بس لینا میرا
دوست ہمسائے، اِقارب سب کو کہدینا سلام
ان سے ملنے کیلئے بے کل ہوں میں ہر وقت یہاں
ان کے حق میں دور سے کرتا ہوں میں ہر دم دُعا
ہماری دلچسپی وہاں کی قدیم اسلامی ثقافت، تاریخی نسخہ جات اور بارہ،تیرہ سو سال پرانی مسجد کی وجہ سے تھی۔ دوسرے دورےکے دوران ہمیں وہاں، ایئرپورٹ پر، ایک شخص ملا، ہمارے پاس آیا اور ادب سے سلام کرکے بولا، ’’میرا نام عبدالرحمن ہے اگر آپ کو گائیڈ کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں‘‘۔ اس کا طرز کلام، اطوار سے ہمیں یہ شخص بہت نفیس معلوم ہوا۔ اس نے ہمیں قریب کے ایک درمیانے ہوٹل میں (جو واحد ہوٹل تھا) ٹھہرایا اور پروگرام طے کرکے دو گاڑیاں منگوالیں اور تمام تاریخی، قابل دید جگہوں کی سیر کرائی، ہم نے معاوضہ پوچھا تو کہا آپ ابھی دو دن اور رہیں جب آپ جانے لگیں تو جو مناسب سمجھیں دیدیجئے گا۔ اس دوران ہماری اس سے اچھی واقفیت ہوگئی، سمجھدار تھا، تمیز دار تھا، نمازی تھا اور صاف ستھرا تھا۔ باتوں باتوں میں ہم نے اس سے زمین کی قیمت کے بارے میں دریافت کیا، اس نے شہر کے اندر سڑک سے ذرا پیچھے جگہ بتائی کہ ایک پلاٹ 70 میٹرx 35 میٹر 2 ہزار ڈالر کا ملتا ہے۔ ہم نے آپس میں فیصلہ کرکے اس کو چار ہزار ڈالر دیئے (جو میرے ڈچ دوست نے ادا کردیے) اور اس نے فوراً دو پلاٹ خرید لئے۔ ایک پلاٹ پر تقریباً 20 فٹ اونچا گھنا درخت تھا۔ بعد میں ہم نے اسلام آباد میں علوی صاحب اور خضر صاحب سے آٹھ کمروں کا اچھا گیسٹ ہائوس ڈیزائن کرادیا اور عبدالرحمن کو تھوڑی تھوڑی رقم بھجوانی شروع کردی، دبئی میں دوستوں نے کچن کا سامان، ڈائننگ سیٹ، کٹلری سیٹ، ڈیپ فریزر اور فریج، ACs وغیرہ بھجوا دیئے۔ جب ہم دو سال بعد گئے تو یہ تیار تھا۔ عبدالرحمن کو ہم نے اسلام آباد بلا کر اس کا ہیمارئڈکا آپریشن کرادیا اور چند ہفتہ مہمان رکھ کر پاکستانی کھانے بنانا سکھا دیئے۔ اس نے تقریباً 20 خاندانوں کی سرپرستی لے لی اور آہستہ آہستہ کمروں کی تعداد 32 کرلی، کافی شاپ بنالی۔ پہلے ہم اس کو پاکستان سے مسالاجات روانہ کردیتے تھے بعد میں حکومت کی پابندی کی وجہ سے ہم نے اپنے پیارے دوست عبدالحمید ابولفاروق سے کہہ کر ریاض، سعودی عرب سے بھجوانا شروع کردئیے اور حمید بھائی ہر سال یہ چیزیں اس کو روانہ کردیتے ہیں۔ سیاح پاکستانی کھانے بے حد پسند کرتے ہیں۔ یہ وہی ہوٹل ہے جس کے بارے میں ہمارے جی ٹی روڈ جنرل مشرف نے الزام لگایا تھا کہ میں نے دس ملین ڈالر کا ہوٹل کھولا ہے۔ اس پر کئی امریکن و یورپین جرنلسٹوں اور ہمارے اپنے سینئر صحافی جناب شاہد الرحمن صاحب نے اپنے ایک جاپانی دوست کے ساتھ جاکر حقیقت سے پردہ اُٹھا دیا تھا۔ عبدالرحمن اب بھی دو تین ہفتوں میں فون کرکے خیریت دریافت کرتا رہتا ہے اور میں اسے ایک بہترین، قابل، نیک غیرمعمولی شخصیت اور بہترین، مخلص دوست سمجھتا ہوں۔
اب واپس’ غیرمعمولی شخصیات سے ملاقاتوں‘ کے بارے میںکچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ تقریباً 30 مختلف ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سیاحی کے عاشق لوگوں نے ایک ہی موضوع یعنی خاص مسلمان لوگوں سے اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ انھوں نے اس بے بنیاد پروپیگنڈہ کی نفی کی ہے ہر مسلمان مذہبی جنونی، دہشت گرد اورخودکش حملہ آور ہے ۔
ایڈیٹرز نے ایسے غیرمعمولی مسلمان شخصیتوں کا چنائو کیا ہے جن کو لوگ ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد رکھتے ہیں اور جو آج بھی لوگوں کی زندگی پر مثبت اثرات رکھتے ہیں۔ اس سلیکشن میں نہ ہی کوئی مشہور صدر، انقلابی کرنل یا شہرت کے دلدادہ اساتذہ یا مبلغ لوگ شامل ہیں۔ آپ ان لوگوں کے حوالے سے با آسانی اندازہ کرسکتے ہیں کہ ایڈیٹروں کا اشارہ کن صدور، کن فوجیوں اور کن مبلغوں کی جانب ہے۔ ان کو نظرانداز کرکے ایڈیٹروں نے عام قلی، ڈرائیورز، اسمگلرز، موسیقار، اَساتذہ، مائوں، پڑوسیوں اور ریسٹورنٹ کے مالکوں کو ان کی غیرمعمولی شخصیت کی بنیاد پر چنا اور ان کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔
یہ کتاب ایک طرح لوگوں کی اپنی یادداشتیں ہیں ان کی دوستی کے قصے ہیں اور ان واقعات کا ذکر ہے جن واقعات نے ان کی زندگی پر نہ مٹنے والے تاثرات چھوڑے ۔ ان مصنفین نے یہ بتایا ہے کہ تعصب، خودساختہ وہمی شکوک کے برعکس ان کے تجربات کسقدر دلچسپ اور خوشگوار ہیں۔ ان مصنفین میں مراکو سے لے کر ہندوستان تک کے لوگ شامل ہیں۔
ان تمام مصنفین کی تحریروں میں ایک چیز نہایت نمایاں ہے اور وہ ہے انسانیت جو کہ مصنفین اور ان لوگوں کے درمیان ہے جن کا ذکر انھوں نے کیا ہے۔ یہاں مذہبی، ثقافتی، مال و دولت کی موجودگی کو بالکل نظرانداز کرکے صرف انسانیت، محبت اور دوستی و میل ملاپ کو خوشنودی کا پیمانہ بنایا گیا ہے۔ یہ کتاب ایک خزینہ اِنسانیت ہے اور تمام پڑھے لکھے لوگوں کو وقت نکال کر اس کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
میں دراصل یہ تمہید اس لئے باندھ رہا ہوں کہ پچھلے دنوں طبیعت کی ناسازی نے دوسری مصروفیات سے دور رکھا اور ایک نہایت ہی اعلیٰ کتاب پڑھنے کا موقع ملا۔ کتاب کا نام ہے Meetings with Remarkable Muslims اس کتاب کو Barnaby Rogerson اور Rose Baring نے ایڈٹ کیا ہے۔ نہایت ہی دلچسپ کتاب ہے اور نہایت غیرمعمولی عام شخصیات سے ملاقاتوں پر مصنفین نے اپنے تاثرات بیان کئے ہیں۔
دراصل اس کے ٹائٹل پر ایک مسجد کی تصویر اور ایک امام ،نہایت خاص طرز کے مالین لباس (تواریگ لباس میں) ، کی تصویر موجود تھی۔ یہ تصویر دیکھ کر میری جستجو بڑھی اور کتاب خرید لی، اس تصویر کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ مالی کے شہر گائو کی مسجد اور اِمام کی ہے۔ یہ دیکھ کر روح پھڑک اُٹھی۔ میں اپنے چند عزیز رفقائے کار کے ساتھ چار مرتبہ ٹمبکٹو گیا تھا۔ یہ ایک تاریخی شہر ہے اور مالی کے شمال میں واقع ہے۔ قدیم زمانہ میں شمال سے قافلے کپڑا، نمک اور دوائیں وغیرہ لے کر ٹمبکٹو آتے تھے اور اس سامان کے بدلہ سونا، چاندی وغیرہ لے جاتے تھے۔ ایک وقت یہاں کی اسلامک یونیورسٹی میں 25 ہزار ملکی اور غیرملکی طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے۔دریائے نائیجر گنی سے نکل کر شمال کی جانب مالی میں بہتا ہوا شمال میں ٹمبکٹو جاتا ہے، وہاں سے مشرق کی جانب مڑ کر جنوب کا رُخ اختیار کرتا ہے۔ ٹمبکٹو کے بعد پہلا درمیانی سائز کا شہر گائو (Gao) ہے یہ خوبصورت پرانے وضع کا شہر ہے۔ ہم ایک مرتبہ سوڈان سے چھڈ اور وہاں سے گائو میں رُکے تھے۔ یہاں کے ایک بزرگ جلاوطن ہو کر مراکو میں رہائش پذیر ہوگئے، احمد بابانام تھا اور ان کے نام سے ٹمبکٹو میں اعلیٰ انسٹی ٹیوٹ ہے جو جنوبی افریقہ کی حکومت نے بنایا ہے اور اس میں بارہ سو ، تیرہ سو سال پرانے دستی نسخہ جات حفاظت سے رکھے ہوئے ہیں۔ ہم نے خود مغرب میں اس علاقہ پر شائع چند اعلیٰ کتب خرید کر دی تھیں۔ احمد بابا نے یہ شعر کہا تھا(ترجمہ)
گائو جانے والے ٹمبکٹو کو مڑ جانا ذرا
ہوں وہیں کا رہنے والا، نام بس لینا میرا
دوست ہمسائے، اِقارب سب کو کہدینا سلام
ان سے ملنے کیلئے بے کل ہوں میں ہر وقت یہاں
ان کے حق میں دور سے کرتا ہوں میں ہر دم دُعا
ہماری دلچسپی وہاں کی قدیم اسلامی ثقافت، تاریخی نسخہ جات اور بارہ،تیرہ سو سال پرانی مسجد کی وجہ سے تھی۔ دوسرے دورےکے دوران ہمیں وہاں، ایئرپورٹ پر، ایک شخص ملا، ہمارے پاس آیا اور ادب سے سلام کرکے بولا، ’’میرا نام عبدالرحمن ہے اگر آپ کو گائیڈ کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں‘‘۔ اس کا طرز کلام، اطوار سے ہمیں یہ شخص بہت نفیس معلوم ہوا۔ اس نے ہمیں قریب کے ایک درمیانے ہوٹل میں (جو واحد ہوٹل تھا) ٹھہرایا اور پروگرام طے کرکے دو گاڑیاں منگوالیں اور تمام تاریخی، قابل دید جگہوں کی سیر کرائی، ہم نے معاوضہ پوچھا تو کہا آپ ابھی دو دن اور رہیں جب آپ جانے لگیں تو جو مناسب سمجھیں دیدیجئے گا۔ اس دوران ہماری اس سے اچھی واقفیت ہوگئی، سمجھدار تھا، تمیز دار تھا، نمازی تھا اور صاف ستھرا تھا۔ باتوں باتوں میں ہم نے اس سے زمین کی قیمت کے بارے میں دریافت کیا، اس نے شہر کے اندر سڑک سے ذرا پیچھے جگہ بتائی کہ ایک پلاٹ 70 میٹرx 35 میٹر 2 ہزار ڈالر کا ملتا ہے۔ ہم نے آپس میں فیصلہ کرکے اس کو چار ہزار ڈالر دیئے (جو میرے ڈچ دوست نے ادا کردیے) اور اس نے فوراً دو پلاٹ خرید لئے۔ ایک پلاٹ پر تقریباً 20 فٹ اونچا گھنا درخت تھا۔ بعد میں ہم نے اسلام آباد میں علوی صاحب اور خضر صاحب سے آٹھ کمروں کا اچھا گیسٹ ہائوس ڈیزائن کرادیا اور عبدالرحمن کو تھوڑی تھوڑی رقم بھجوانی شروع کردی، دبئی میں دوستوں نے کچن کا سامان، ڈائننگ سیٹ، کٹلری سیٹ، ڈیپ فریزر اور فریج، ACs وغیرہ بھجوا دیئے۔ جب ہم دو سال بعد گئے تو یہ تیار تھا۔ عبدالرحمن کو ہم نے اسلام آباد بلا کر اس کا ہیمارئڈکا آپریشن کرادیا اور چند ہفتہ مہمان رکھ کر پاکستانی کھانے بنانا سکھا دیئے۔ اس نے تقریباً 20 خاندانوں کی سرپرستی لے لی اور آہستہ آہستہ کمروں کی تعداد 32 کرلی، کافی شاپ بنالی۔ پہلے ہم اس کو پاکستان سے مسالاجات روانہ کردیتے تھے بعد میں حکومت کی پابندی کی وجہ سے ہم نے اپنے پیارے دوست عبدالحمید ابولفاروق سے کہہ کر ریاض، سعودی عرب سے بھجوانا شروع کردئیے اور حمید بھائی ہر سال یہ چیزیں اس کو روانہ کردیتے ہیں۔ سیاح پاکستانی کھانے بے حد پسند کرتے ہیں۔ یہ وہی ہوٹل ہے جس کے بارے میں ہمارے جی ٹی روڈ جنرل مشرف نے الزام لگایا تھا کہ میں نے دس ملین ڈالر کا ہوٹل کھولا ہے۔ اس پر کئی امریکن و یورپین جرنلسٹوں اور ہمارے اپنے سینئر صحافی جناب شاہد الرحمن صاحب نے اپنے ایک جاپانی دوست کے ساتھ جاکر حقیقت سے پردہ اُٹھا دیا تھا۔ عبدالرحمن اب بھی دو تین ہفتوں میں فون کرکے خیریت دریافت کرتا رہتا ہے اور میں اسے ایک بہترین، قابل، نیک غیرمعمولی شخصیت اور بہترین، مخلص دوست سمجھتا ہوں۔
اب واپس’ غیرمعمولی شخصیات سے ملاقاتوں‘ کے بارے میںکچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ تقریباً 30 مختلف ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سیاحی کے عاشق لوگوں نے ایک ہی موضوع یعنی خاص مسلمان لوگوں سے اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ انھوں نے اس بے بنیاد پروپیگنڈہ کی نفی کی ہے ہر مسلمان مذہبی جنونی، دہشت گرد اورخودکش حملہ آور ہے ۔
ایڈیٹرز نے ایسے غیرمعمولی مسلمان شخصیتوں کا چنائو کیا ہے جن کو لوگ ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد رکھتے ہیں اور جو آج بھی لوگوں کی زندگی پر مثبت اثرات رکھتے ہیں۔ اس سلیکشن میں نہ ہی کوئی مشہور صدر، انقلابی کرنل یا شہرت کے دلدادہ اساتذہ یا مبلغ لوگ شامل ہیں۔ آپ ان لوگوں کے حوالے سے با آسانی اندازہ کرسکتے ہیں کہ ایڈیٹروں کا اشارہ کن صدور، کن فوجیوں اور کن مبلغوں کی جانب ہے۔ ان کو نظرانداز کرکے ایڈیٹروں نے عام قلی، ڈرائیورز، اسمگلرز، موسیقار، اَساتذہ، مائوں، پڑوسیوں اور ریسٹورنٹ کے مالکوں کو ان کی غیرمعمولی شخصیت کی بنیاد پر چنا اور ان کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔
یہ کتاب ایک طرح لوگوں کی اپنی یادداشتیں ہیں ان کی دوستی کے قصے ہیں اور ان واقعات کا ذکر ہے جن واقعات نے ان کی زندگی پر نہ مٹنے والے تاثرات چھوڑے ۔ ان مصنفین نے یہ بتایا ہے کہ تعصب، خودساختہ وہمی شکوک کے برعکس ان کے تجربات کسقدر دلچسپ اور خوشگوار ہیں۔ ان مصنفین میں مراکو سے لے کر ہندوستان تک کے لوگ شامل ہیں۔
ان تمام مصنفین کی تحریروں میں ایک چیز نہایت نمایاں ہے اور وہ ہے انسانیت جو کہ مصنفین اور ان لوگوں کے درمیان ہے جن کا ذکر انھوں نے کیا ہے۔ یہاں مذہبی، ثقافتی، مال و دولت کی موجودگی کو بالکل نظرانداز کرکے صرف انسانیت، محبت اور دوستی و میل ملاپ کو خوشنودی کا پیمانہ بنایا گیا ہے۔ یہ کتاب ایک خزینہ اِنسانیت ہے اور تمام پڑھے لکھے لوگوں کو وقت نکال کر اس کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
بشکریہ جنگ
0 comments: