Facebook Twitter Google RSS

Sunday, February 11, 2018

علاء الدین خلجی اور رانی پدماوتی تاریخی حقائق کیا کہتے ہیں؟ محمد فہد حارث اتوار 11 فروری


حال ہی میں ہندوستان کے مشہور فلم ڈائریکٹر سنجے لیلابھنسالی نے ہندوستان پر حکومت کرنے والے آٹھویں صدی ہجری کے مسلم حکم راں علاء الدین خلجی کے راجستھان کے قلعہ چتوڑ پر حملے سے متعلق ایک فلم بنائی ہے، جس میں کہانی نویس نے علاء الدین خلجی کو ایک وحشی اور ظالم حکم راں کے طور پر دکھایا ہے جو کہ چتوڑ پر حملہ وہاں کے راجہ رتن سین کی دوسری رانی پدماوتی کی خوب صورتی کا سن کر اس کو پانے کے لیے کرتا ہے۔


پہلی بات تو یہ یاد رہے کہ علاء الدین خلجی کا چتوڑ پر حملہ صرف اور صرف میواڑ کو دہلی سلطنت کا باج گزار بنانے کے لیے تھا۔ اس کے پیچھے کسی رانی کو پانے کا کوئی خواب یا مقصد کسی ہم عصر مورخ نے کبھی بیان نہیں کیا۔ جناب امیر خسرو جو کہ علاء الدین خلجی کے ساتھ اس لشکر میں شامل تھے جو کہ چتوڑ کا قلعہ فتح کرنے گیا تھا اور جنھوں نے چتوڑ پر حملے کی پوری داستان کو اپنی تصنیف خزائن الفتوح میں بیان کیا ہے، وہ چتوڑ پر حملے کی ایسی کوئی وجہ نہیں لکھتے۔
تاریخ فیروز شاہی کے مولف جناب ضیاء الدین برنی جو کہ چتوڑ کے محاصرے کے وقت جوان تھے، اپنی تاریخ میں علاء الدین خلجی کے چتوڑ پر حملہ کرنے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ علاء الدین خلجی کے کوتوال علاء الملک نے خلجی کو چتوڑ پر حملہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، کیوںکہ میواڑ کی ریاست نے علاء الدین خلجی کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو پناہ دے رکھی تھی۔

ضیاء الدین برنی رانی پدماوتی یا اس کی وجہ سے چتوڑ پر حملہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ اسی طرح سے ایک اور مورخ عبدالملک عصامی، جو کہ بہمنی سلطنت کا درباری شاعر اور مورخ تھا اور چتوڑ کے محاصرے کے آٹھ سال بعد پیدا ہوا تھا، وہ بھی علاء الدین خلجی کے چتوڑ پر حملے کی وجہ باغیوں کے وہاں پناہ گزین ہونے کو قرار دیتا ہے۔
یاد رہے کہ مورخ ضیاء الدین برنی اور عبدالملک عصامی دونوں خلجی خاندان کے حریف خاندانوں کے دل دادہ تھے، گویا ان کی گواہی دشمن کی گواہی قرار دی جاسکتی ہے سو اگر چتوڑ کے محاصرے میں رانی پدماوتی کو پانے کا کوئی مقصد ہوتا تو یہ دونوں مورخین اس بات کو ضرور بڑھا چڑھا کر بیان کرتے۔ ان کا اس طور کی کسی وجہ کا ذکر نہ کرنا ہی اس بات کو ثابت کردیتا ہے کہ علاء الدین خلجی کے چتوڑ پر حملے کی وجہ کوئی رانی نہیں تھی، بل کہ یہ باغیوں کو پناہ دینے کی سزا اور ملک گیری کی ایک مہم تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رانی پدماوتی کا قصہ اس متعلق کیوں مشہور ہوا؟ رانی پدماوتی کی خیالی کہانی سب سے پہلے مغل بادشاہ بابر کے زمانے کے صوفی شاعر ملک محمد جائسی (متوفی 1542عیسوی) نے چتوڑ قلعے کے محاصرے کے کوئی 237 سال کے بعد اپنی نظم میں تحریر فرمائی۔ گویا ہیر رانجھا، لیلیٰ مجنوں کی طرز پر صوفی ملک محمد جائسی نے ایک دیومالائی کہانی تصنیف کی، جس میں بیان کیا کہ علاء الدین خلجی کو رانی پدماوتی کے حسن کی بابت راجا رتن سین کا مہا پنڈت راگھو چیتن بتاتا ہے، جس کو راجا رتن سین اس جرم میں ملک بدر کردیتا ہے کہ وہ رانی پدماوتی اور راجا رتن سین کو خلوت میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
راجا رتن سین سے انتقام لینے کی غرض سے مہاپنڈت، علاء الدین خلجی کو رانی پدماوتی کے حسن کی تفصیلات بتا کر میواڑ پر چڑھائی کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ رانی کے حسن کی تفصیل سے متاثر ہوکر علاء الدین خلجی دہلی سے میواڑ چڑھائی کرنے پہنچ جاتا ہے۔ لیکن راجا رتن سین کی موت اور قلعہ فتح کرنے کے باوجود وہ رانی پدماوتی کو حاصل نہیں کرپاتا، کیوںکہ قلعہ فتح ہونے سے قبل ہی راجا رتن سین کی موت کا سن کر رانی پدماوتی اپنے محل کی سیکڑوں داسیوں کو لے کر آگ میں کود جاتی ہے، تاکہ علاء الدین خلجی اور اس کے سپاہیوں کے ’’ناپاک‘‘ وجود سے خود کو بچا سکے۔ آگ میں کودنے کی اس رسم کو ’’جوہر‘‘ کہا جاتا ہے اور اس رسم کو ادا کرنے کی وجہ سے رانی پدماوتی کو ہندوؤں کی لوک کہانیوں میں دیوی مانا جاتا ہے۔
صوفی شاعر ملک محمد جائسی نے بغیر کسی سند اور پچھلے مورخ کا ذکر کیے اس کہانی کو نظم میں پیش کیا اور وہاں سے ہندو مورخین نے اس کہانی کو اخذ کرکے اس میں مزید مرچ مسالا لگا کر مسلمان بادشاہ علاء الدین خلجی کو خوب بدنام کیا جب کہ پدماوتی کی اس کہانی میں کوئی صداقت نہیں اور نہ ہی علاء الدین خلجی نے چتوڑ پر حملہ کسی رانی کے لیے کیا تھا۔
اور جہاں تک بات رہی کہ علاء الدین خلجی ایک وحشی اور ظالم حکم راں تھا، جس کی رعیت اس کے ظلم و جبر کا شکار تھی تو یہ بات بھی سرتاپا غلط ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ خلجی خاندان کا پہلا بادشاہ اور علاء الدین خلجی کا سگا چچا جلال الدین خلجی بہت نرم دل تھا، یہاں تک کہ وہ باغیوں کو بھی پکڑے جانے پر معاف کردیا کرتا تھا، جس کی وجہ سے امور ملکی میں خلل پڑنا شروع ہوگیا تھا۔
یہی وجہ ہوئی کہ جب جلال الدین خلجی کی نرم دلی کی شہرت عام ہوئی تو ملک بھر میں چوروں، ڈاکوؤں اور راہ زنوں نے سر اٹھا کر فتنہ فساد پھیلانا شروع کردیا اور جب وہ گرفتار ہوکر بادشاہ کے پاس لائے جاتے تو بادشاہ ان کو پیروں اور مشائخ کی طرح بغیر سزا دیے وعظ و نصیحت کرکے چھوڑدیتا اور وہ لوگ واپس جاکر پھر سے لوٹ مار کا بازار گرم کرتے۔ اس ڈھیل کی وجہ سے بادشاہ کے خلاف جگہ جگہ سازشیں شروع ہوگئیں اور خلجی امراء یہ کہنے لگے کہ اب بادشاہ سٹھیا گیا ہے اور حکومت کے لیے ناموزوں ہوگیا ہے۔ بہتر ہے کہ اسے معزول کیا جائے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا موزوں شخص تخت نشین ہو۔
یہ وہ حالات تھے جنھوں نے جلال الدین خلجی کے بھتیجے اور داماد علاء الدین خلجی کو اپنے چچا کے قتل پر ابھار کر زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لینے پر آمادہ کیا۔ علاء الدین خلجی کا حال اپنے چچا جلال الدین جیسا نہ ہو، اسی لیے علاء الدین خلجی نے حکومت میں آتے ہی چوروں، ڈاکوؤں اور باغیوں کے خلاف سخت تادیبی کاروائیاں کیں۔ وہ دیکھ چکا تھا کہ حکومتی معاملات میں نرم دلی دکھانے کا کیا نقصان ہوتا ہے، سو پہلے دن سے ہی علاء الدین خلجی ہر مجرم کے لیے قہر ثابت ہوا۔ لیکن اس قہر کا صدور اس وقت ہوتا جب کوئی کسی جرم کا ارتکاب کرتا یا ملک میں فساد ڈالنے کی کوشش کرتا۔ وگرنہ علاء الدین خلجی میں اعلیٰ حکم رانوں کی کئی خوبیاں پائی جاتی تھیں۔
ہندوستان کا جس قدر علاقہ اس کے زیرنگیں تھا، برطانوی حکومت سے پہلے کسی کو نصیب نہ ہوا۔ علاء الدین خلجی کے دور میں منگولوں کا خوف پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا لیکن یہ علاء الدین خلجی کا زور بازو اور حسن تدبیر تھا کہ اس نے ہندوستان کو منگولوں کے حملوں سے بچا کر رکھا۔ چتوڑ کے قلعے کی فتح کے بعد جب علاء الدین خلجی واپس دہلی آیا تو سوا لاکھ منگولوں کے ساتھ مغل سردار ترغی عین دہلی کے سامنے آن پہنچا تھا، جس کو علاء الدین خلجی نے اپنے زور بازو اور حسن تدبیر سے ایک انچ زمین فتح کیے بغیر واپس جانے پر مجبور کردیا۔
اس کے بعد تاتاریوں کے مزید کسی حملے سے بچنے کے لیے علاء الدین خلجی نے شمال مغربی سرحد پر مضبوط قلعے بنوائے اور ان کا انتظام غازی ملک کے سپرد کیا جو کہ بعد میں سلطان غیاث الدین تغلق کے نام سے تخت نشین ہوا۔ غازی ملک نے منگولوں اور تاتاریوں کو پے در پے شکست دی اور ان کا ہندوستان فتح کرنے کا خواب چکنا چور کردیا۔ گویا اگر علاء الدین خلجی ہمت دکھا کر حسن تدبیر سے کام نہ لیتا تو منگول ہندوستان کا بھی وہی حال کرتے جو انہوں نے بغداد کا کیا تھا۔
جہاں تک علاء الدین خلجی کی اپنی رعایا کے ساتھ سلوک کی بات ہے تو اس بابت ہم عصر مورخ ضیا ء الدین برنی اپنی کتاب ’’تاریخ فیروز شاہی‘‘ میں خلجی کے خلاف تمام تر تعصب کے باوجود عہد علائی کی جو خصوصیات بیان کرتے ہیں وہ بالاختصار یہ ہیں:
۱۔ منگول حملہ آوروں کا قلع وقمع
۲۔ چھوٹے تاجروں پر سے ٹیکس کی معافی
۳۔ علاء الدین خلجی کی غیر معمولی اور مسلسل فتوحات
۴۔ غریبوں پر شفقت اور باغیوں اور متکبروں پر قہر
۵۔ مہنگائی میں از حد کمی اور غلے اور سامان معیشت کی فراوانی جس پر بارش کی کمی بیشی کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔
۶۔ ملک اور راستوں کا امن و سکون
۷۔ بے شمار نئی عمارتوں جیسے مساجد، سرائے اور قلعوں کی تعمیر۔
۸۔ تاجروں اور دکانداروں کی ترقی اور قواعد شاہی کی پابندی
۹۔ ملک میں علماء اور مختلف ماہر فن کا جمع ہونا
۰۱۔ عام رعایا کی روحانی اور علمی ترقی
(ماخوذ از تاریخ فیروز شاہی صفحہ نمبر 329 تا341)
اسی طرح مشہور سیاح اور مورخ ابن بطوطہ جو کہ خلجی کی وفات کے چند سال بعد ہی ہندوستان میں وارد ہوا تھا، اپنے سفرنامہ ’’رحال‘‘ میں علاء الدین خلجی کی بابت لکھتا ہے :
علاء الدین خلجی نے بیس برس حکومت کی، و ہ بہت اچھے بادشاہوں میں شمار ہوتا تھا۔ اہل ہند اب تک اس کی تعریفیں کرتے ہیں۔ وہ خود امورسلطنت انجام دیتا تھا اور ہر روز نرخ وغیرہ کی بابت دریافت کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک روز اس نے محتسب سے دریافت کیا کہ گوشت کے گراں ہونے کا کیا سبب ہے؟ اس نے کہا کہ گائے اور بکری پر محصول یعنی ٹیکس لیا جاتا ہے۔ بادشاہ نے اسی روز سے گائے بکری پر محصول ختم کردیا۔ ایک دفعہ غلہ بہت منہگا ہوگیا تو اس نے سرکاری گودام کھلوادیے اور نرخ کم ہوگئے۔
رہی بات ملک کافور اور علاء الدین خلجی کے مابین غیرفطری تعلقات کی، جسے سنجے لیلا بھنسالی صاحب نے بھی دکھانے کی نارروا سعی کی ہے تو یاد رہے کہ یہ سب خرافات متعصب ہندو مورخوں کا گھڑا ہوا جھوٹ ہیں۔ کسی ہم عصر مورخ نے ملک کافور اور خلجی کے مابین اس طور کے غیرفطری تعلقات کی بات نہیں کی۔ تین /چار سو سال کے بعد آنے والے مورخین کا اس طرح کا جھوٹ گھڑ کر کسی حکم راں کی طرف منسوب کردینا خود اس بات کے وضعی ہونے کو کافی ہے۔ البتہ یہ سچ ہے کہ علاء الدین خلجی ملک کافور پر از حد اعتماد کرتا تھا جس کی وجہ سے خلجی سے چند انتظامی بداعمالیاں بھی سر زد ہوئیں جو کہ یقیناً لائق مذمت بات ہے، لیکن اس سے خلجی کے دور کی اچھی باتیں منحوس نہیں ہو جاتیں۔ سو ملک کافور اور خلجی کے مابین کسی غیرفطری تعلق سے متعلق بعد کے کسی مورخ کا کچھ لکھنا، چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان، صرف ایک گپ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
المختصر علاء الدین خلجی نہ تو کوئی ولی اللہ تھا اور نہ ہی کوئی ظالم و جابر بادشاہ۔ وہ ایک عام مسلم حکم راں تھا، جس کے دور میں رعایا خیروخوبی اور ترقی کے ساتھ خوش حال زندگی جی رہی تھی اور جس کے دور میں ہندوستان نے نہ صرف ترقی کی بلکہ منگولوں کے فتنے سے بھی محفوظ رہا جس کے لیے ہندوستان رہتی دنیا تک علاء الدین خلجی کا احسان مند رہے گا۔ خلجی کے دور کا خیر اس کے دور کے شر سے زیادہ تھا اور یہ بات اس کی ذات پر بھی صادق آتی ہے۔ البتہ اس کی طرف جو جھوٹی تاریخ کی نسبت کی جاتی ہے اس کا ابطال ضروری ہے۔
علاء الدین خلجی کے عہد سے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے شیخ محمد اکرام کی کتاب ’’آب کوثر‘‘ کی طرف مراجعت مفید رہے گی۔

Monday, January 29, 2018

گٹر جرنلزم - حا مد میر JANUARY 29, 2018



اتوار کے دن چیف جسٹس آف پاکستان کی عدالت میں طلبی ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس خاکسار سمیت میڈیا کی اہم شخصیات کو سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں طلب کیا تھا۔ طلبی کی وجہ یہ تھی کہ ایک ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے پروگرام میں دعویٰ کیا تھا کہ قصور میں زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی زینب کے مقدمے میں گرفتار ہونے والے ملزم کے37بنک اکائونٹس ہیں، ملزم کا تعلق ایک ایسے انٹرنیشنل مافیا سے ہے جو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی فلمیں بناتا ہے اور اس مافیا کو ایک اہم سیاسی شخصیت کی سرپرستی حاصل ہے جس کا تعلق پنجاب سے ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے اس دعوے کے ساتھ ہی چیف جسٹس سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر نوٹس لیں۔ چیف جسٹس صاحب نے نوٹس لے لیا اور ڈاکٹر صاحب کو بلالیا۔ عدالت میں ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے دعوے کے حق میں ثبوت پیش کریں۔ ڈاکٹر صاحب نے عدالت میں37بنک اکائونٹس کی ایک فہرست پیش کردی۔ عدالت نے پوچھا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کی فلمیں بنانے والے انٹرنیشنل مافیا کی سرپرستی کرنے والی سیاسی شخصیت کون ہے تو ڈاکٹر شاہد مسعود نے کاغذ پر ایک وفاقی وزیر کا نام لکھ کر چیف جسٹس صاحب کو دے دیا۔ تحقیقات ہوئیں تو ڈاکٹر شاہد مسعود کا کوئی بھی دعویٰ سچا ثابت نہ ہوا۔ میڈیا میں ان پر تنقید شروع ہوگئی لیکن وہ معذرت کی بجائے دھمکیوں پر اتر آئے اور کہنے لگے کہ جو مجھے غلط کہہ رہے ہیں میں ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ چیف جسٹس نے اپنے از خود نوٹس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے میڈیا کے کچھ لوگوں سے معاونت طلب کرلی۔ ہفتہ کی شام اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے میں بار بار یہ سوچ رہا تھا کہ کاش سپریم کورٹ اور حکومت کے مختلف اداروں کو ایک غیر ضروری بحث میں نہ الجھایا جاتا اور میڈیا ڈاکٹر شاہد مسعود پر وقت ضائع کرنے کےبجائے یہ تحقیق کررہا ہوتا کہ ملزم عمران علی اتنا سنگدل کیوں بن گیا تھا؟ وہ بار بار ایک ہی شہر میں چھوٹی معصوم بچیوں کو اغواء کرنے اور ان کے ساتھ زیادتی کرکے قانون کی گرفت سے کیوں بچتا رہا؟ 2015ء میں اس شہر قصور میں سینکڑوں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیو فلمیں بنانے کے ایک اسیکنڈل کا انکشاف ہوا تھا۔ اس اسیکنڈل میں ملوث افراد عبرتناک انجام تک کیوں نہ پہنچے؟ اگر 2015ءمیں سامنے آنے والے اسیکنڈل میں ملوث افراد کو فوری طور پر سخت سزائیں مل جاتیں تو شاید عمران علی کو قصور میں بار بار زینب جیسی بچیوں کے اغواء کی جرأت نہ ہوتی۔ یہ وقت پنجاب حکومت سے کئی اہم سوالات پوچھنے کا تھا۔ عمران علی سے تفتیش میں یہ پتہ چلا کہ خود وہ بھی بچپن سے جوانی تک کئی بار درجنوں افراد کی ہوس کا نشانہ بنتا رہا، جو لوگ عمران علی سے زیادتی کرتے رہے وہ کون ہیں؟ ان کے خلاف کارروائی ہوگی یا نہیں؟ افسوس کہ میڈیا اور حکومتی اداروں کی توجہ عمران علی سے ہٹ کر ڈاکٹر شاہد مسعود کی طرف چلی گئی۔موصوف نے ایک جھوٹ بول کر سنسنی پھیلائی اور ملک میں طوفان برپا کردیا۔ اب حکومت پنجاب بھی ڈاکٹر شاہد مسعود کے جھوٹ کے پیچھے چھپ رہی ہے اور کچھ لوگ ڈاکٹر شاہد مسعود کی وجہ سے پورے میڈیا کو’’گٹر جرنلزم‘‘ قرار دے رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی وجہ سے پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کی بڑی کمزوریاں سامنے آئی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو برا بھلا کہنے سے پہلے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ سب جانتے تھے ان کا کوئی صحافتی تجربہ نہیں پھر بھی انہیں ایک ٹی وی چینل نے اپنا ڈائریکٹر نیوز کیوں بنایا؟ ایک اور چینل نے انہیں اپنا گروپ ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیوں بنالیا؟ ان پر بار بار جھوٹ بولنے کے الزامات لگتے رہے۔ 2010ء میں ائربلیو کا طیارہ اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا تو ڈاکٹر شاہد مسعود نے دعویٰ کیا کہ اس طیارے پر ایوان صدر سے فائرنگ کی گئی تھی۔ اس خوفناک جھوٹ پر ان کی کوئی باز پرس نہ ہوئی لہٰذا انہوں نے اس قسم کے دعوئوں کو ایک معمول بنالیا۔ کئی بار پیمرا نے انکے خلاف کارروائی کی۔ ان کا پروگرام کچھ عرصے کیلئے بند بھی ہوا لیکن مختلف ٹی وی چینلز ان کی خدمات حاصل کرتے رہے اور آج ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کو’’گٹر جرنلزم‘‘ کے طعنے سننے پڑ رہے ہیں۔ 27جنوری 2017ء کو’’ایک انگریزی اخبار‘‘ میں ڈاکٹر شاہد مسعود کا نام لئے بغیر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے لکھا ہے کہ ’’مقبول اینکرز نے تواتر کیساتھ قاتلوں اور دہشتگردوں کو ٹی وی پر بولنے کا موقع بھی دیا اور ان سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا اور ہر قسم کی افواہ اور جھوٹ کو نشر کیا۔‘‘ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ایک ٹی وی اینکر تو ایسا بھی تھا جس نے ملالہ یوسفزئی پر حملے کو درست قرار دیا اور ایسے اینکروں کی’’گٹر جرنلزم‘‘ نے ہماری قومی ثقافت تباہ کردی ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے جو کچھ بھی لکھا ہے اس میں دلیل سے زیادہ غصہ حاوی ہے۔ وہ یہ لکھنا بھول گئے کہ جس میڈیا پر وہ دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگارہے ہیں یہی میڈیا خود بھی دہشت گردی کا نشانہ ہے اور پچھلے دس سال میں 120سے زیادہ میڈیا ورکرز مارے جاچکے ہیں۔ انہیں ملالہ یوسفزئی پر حملے کو درست قرار دینے والا اینکر یاد رہا لیکن اس اینکر کو بھول گئے جو 2009ء میں ملالہ یوسفزئی کو سب سے پہلے پاکستانی میڈیا پر لایا۔ انہیں موقع ملے تو خود ملالہ یوسفزئی سے پوچھ لیں کہ ملالہ کی حمایت کرنے پر کون کون سے ٹی وی اینکر کو دھمکیاں ملیں؟ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی فزکس کے پروفیسر ہیں، جب وہ سائنس کی بات کرتے ہیں تو اس میں منطق حاوی ہوتی ہے۔ انہیں یاد ہوگا کہ 2012ء میں خیر پور سے تعلق رکھنے والے انجینئر آغا وقار نے واٹرکٹ کے ذریعہ گاڑی چلانے کا دعویٰ کیا۔ جب پاکستان انجینئرنگ کونسل اور پی سی ایس آئی آر نے اس کے دعوے کو درست قرار دیدیا تو میں نے’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں آغا وقار کو پی سی ایس آئی آر کے سربراہ ڈاکٹر شوکت پرویز اور ڈاکٹر عطاء الرحمان کیساتھ بٹھا کر بحث کرائی۔ ڈاکٹر شوکت نے واٹرکٹ کی حمایت کی جبکہ ڈاکٹر عطاء الرحمان نے و اٹر کٹ کو فراڈ قرار دیا۔ پھر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے’’واٹر کٹ فراڈ‘‘ کے نام سے کالم لکھا تو میں نے آغا وقار کو پرویز ہود بھائی کے سامنے بٹھا دیا اور پوچھا کہ بتائیے آغا وقار کا فراڈ کیسے پکڑیں اور اسے کیا سزادیں؟
ڈاکٹر عطاء الرحمان آرگینک کیمسٹری اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی فزکس کی بات کریں تو بڑے اچھے لگتے ہیں لیکن جب ڈاکٹر عطاء الرحمان کی طرف سے قائد اعظمؒ کی مبینہ ڈائری میں سے صدارتی نظام کی حمایت ڈھونڈنے کی کوشش ہوتی ہے تو حیرانی ہوتی ہے۔ پچھلے سال ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے’’ایک انگریزی اخبار ‘‘ میں داعش پر ایک کالم لکھا اور داعش کے نظریے کو علامہ اقبالؒ کے نظریات سے مماثل قرار دینے کے لئے اقبالؒ کے ایک لیکچر کا غلط حوالہ بھی دے دیا۔ پروفیسر فتح محمد ملک نے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی غلطی کی نشاندہی کے لئے ایک اردو اخبار میں کالم لکھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے غلطی تسلیم نہیں کی۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ جس معاشرے میں سائنس دان ہمیں تاریخ پڑھائیں، سیاستدان اینکر بن جائیں اور اینکر سیاستدان بن جائیں وہاں ڈاکٹر شاہد مسعود ہی پیدا ہوگا، ڈیوڈ فراسٹ یا لیری کنگ پیدا نہیں ہوگا۔ پاکستان کی صحافت پہلے ہی لہولہان تھی اب’’گٹر جرنلزم‘‘ کے طعنے بھی سنے گی، جو معاشرہ خود گٹر بن جائے اس میں عمران علی جیسے گندے لوگ پیدا ہوتے ہیں لہٰذا گٹر سوسائٹی ہی’’گٹر جرنلزم‘‘ پیدا کرتی ہے، ہم سب ایک دوسرے کو گندا قرار دینے کی بجائے اپنا اپنا گند صاف کرلیں تو بدبو کافی کم ہوجائے گی۔
بشکریہ جنگ

غیرمعمولی شخصیات - ڈاکٹر عبدالقدیر خان JANUARY 29, 2018


دلچسپ اور اچھی کتابوں کا فقدان نہیں ہے فقدان ہے تو پڑھنے والوں کا، مطالعہ کرنے والوں کا اور لطف اندوز ہونے والوں کا۔ جب سے یہ ’’جدید‘‘ دور شروع ہوا ہے یعنی فلمیں، قطعی غیرفطری، مشینوں کی طرح دیو ہیکل روبوٹس، اُڑن کھٹولے، عجب غیر قدرتی ہتھیار تو انھوں نے نہ صرف نوجوانوں کو بلکہ بڑے لوگوں کو بھی اپنے قابو میں کرلیا ہے۔ اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اس قسم کی غیرفطری، فضول سی فلمیں اربوں روپیہ فی ہفتہ کما لیتی ہیں۔ مغربی ممالک میں تو ایک اچھا بڑا طبقہ اب بھی کتابوں کے مطالعہ کا شوقین ہے اور وہاں اچھی کتابیں بہت جلد ’بیسٹ سیلر‘ بن جاتی ہیں اور مصنف کروڑ پتی بن جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اچھی سے اچھی کتاب ہزار سے دو ہزار تک چھپتی ہے اور مصنف کو یہ کتابیں بھی دوستوں کو تحفہ میں دینا پڑتی ہیں۔ ہمارے لاتعداد اعلیٰ مصنف، ادیب، شعراء اپنی محنت کے پھلوں سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے۔ پرانے زمانے میں جب الیکٹرانک، موبائلز اور کمپیوٹرز نے ہماری زندگی پر قبضہ نہیں کیا تھا تو ہم بہت شوق سے کتابیں پڑھتے تھے اور دوست آپس میں اپنی پڑھی ہوئی کتب پر تبصرہ کرتے تھے۔ ہر علاقہ میں لائبریریاں تھیں اور آپ روز ہی کتاب تبدیل کرسکتے تھے۔ ابن صفی کی کتاب آنے سے پیشتر قطار لگ جاتی تھی۔ 
میں دراصل یہ تمہید اس لئے باندھ رہا ہوں کہ پچھلے دنوں طبیعت کی ناسازی نے دوسری مصروفیات سے دور رکھا اور ایک نہایت ہی اعلیٰ کتاب پڑھنے کا موقع ملا۔ کتاب کا نام ہے Meetings with Remarkable Muslims اس کتاب کو Barnaby Rogerson اور Rose Baring نے ایڈٹ کیا ہے۔ نہایت ہی دلچسپ کتاب ہے اور نہایت غیرمعمولی عام شخصیات سے ملاقاتوں پر مصنفین نے اپنے تاثرات بیان کئے ہیں۔
دراصل اس کے ٹائٹل پر ایک مسجد کی تصویر اور ایک امام ،نہایت خاص طرز کے مالین لباس (تواریگ لباس میں) ، کی تصویر موجود تھی۔ یہ تصویر دیکھ کر میری جستجو بڑھی اور کتاب خرید لی، اس تصویر کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ مالی کے شہر گائو کی مسجد اور اِمام کی ہے۔ یہ دیکھ کر روح پھڑک اُٹھی۔ میں اپنے چند عزیز رفقائے کار کے ساتھ چار مرتبہ ٹمبکٹو گیا تھا۔ یہ ایک تاریخی شہر ہے اور مالی کے شمال میں واقع ہے۔ قدیم زمانہ میں شمال سے قافلے کپڑا، نمک اور دوائیں وغیرہ لے کر ٹمبکٹو آتے تھے اور اس سامان کے بدلہ سونا، چاندی وغیرہ لے جاتے تھے۔ ایک وقت یہاں کی اسلامک یونیورسٹی میں 25 ہزار ملکی اور غیرملکی طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے۔دریائے نائیجر گنی سے نکل کر شمال کی جانب مالی میں بہتا ہوا شمال میں ٹمبکٹو جاتا ہے، وہاں سے مشرق کی جانب مڑ کر جنوب کا رُخ اختیار کرتا ہے۔ ٹمبکٹو کے بعد پہلا درمیانی سائز کا شہر گائو (Gao) ہے یہ خوبصورت پرانے وضع کا شہر ہے۔ ہم ایک مرتبہ سوڈان سے چھڈ اور وہاں سے گائو میں رُکے تھے۔ یہاں کے ایک بزرگ جلاوطن ہو کر مراکو میں رہائش پذیر ہوگئے، احمد بابانام تھا اور ان کے نام سے ٹمبکٹو میں اعلیٰ انسٹی ٹیوٹ ہے جو جنوبی افریقہ کی حکومت نے بنایا ہے اور اس میں بارہ سو ، تیرہ سو سال پرانے دستی نسخہ جات حفاظت سے رکھے ہوئے ہیں۔ ہم نے خود مغرب میں اس علاقہ پر شائع چند اعلیٰ کتب خرید کر دی تھیں۔ احمد بابا نے یہ شعر کہا تھا(ترجمہ)
گائو جانے والے ٹمبکٹو کو مڑ جانا ذرا
ہوں وہیں کا رہنے والا، نام بس لینا میرا
دوست ہمسائے، اِقارب سب کو کہدینا سلام
ان سے ملنے کیلئے بے کل ہوں میں ہر وقت یہاں
ان کے حق میں دور سے کرتا ہوں میں ہر دم دُعا
ہماری دلچسپی وہاں کی قدیم اسلامی ثقافت، تاریخی نسخہ جات اور بارہ،تیرہ سو سال پرانی مسجد کی وجہ سے تھی۔ دوسرے دورےکے دوران ہمیں وہاں، ایئرپورٹ پر، ایک شخص ملا، ہمارے پاس آیا اور ادب سے سلام کرکے بولا، ’’میرا نام عبدالرحمن ہے اگر آپ کو گائیڈ کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں‘‘۔ اس کا طرز کلام، اطوار سے ہمیں یہ شخص بہت نفیس معلوم ہوا۔ اس نے ہمیں قریب کے ایک درمیانے ہوٹل میں (جو واحد ہوٹل تھا) ٹھہرایا اور پروگرام طے کرکے دو گاڑیاں منگوالیں اور تمام تاریخی، قابل دید جگہوں کی سیر کرائی، ہم نے معاوضہ پوچھا تو کہا آپ ابھی دو دن اور رہیں جب آپ جانے لگیں تو جو مناسب سمجھیں دیدیجئے گا۔ اس دوران ہماری اس سے اچھی واقفیت ہوگئی، سمجھدار تھا، تمیز دار تھا، نمازی تھا اور صاف ستھرا تھا۔ باتوں باتوں میں ہم نے اس سے زمین کی قیمت کے بارے میں دریافت کیا، اس نے شہر کے اندر سڑک سے ذرا پیچھے جگہ بتائی کہ ایک پلاٹ 70 میٹرx 35 میٹر 2 ہزار ڈالر کا ملتا ہے۔ ہم نے آپس میں فیصلہ کرکے اس کو چار ہزار ڈالر دیئے (جو میرے ڈچ دوست نے ادا کردیے) اور اس نے فوراً دو پلاٹ خرید لئے۔ ایک پلاٹ پر تقریباً 20 فٹ اونچا گھنا درخت تھا۔ بعد میں ہم نے اسلام آباد میں علوی صاحب اور خضر صاحب سے آٹھ کمروں کا اچھا گیسٹ ہائوس ڈیزائن کرادیا اور عبدالرحمن کو تھوڑی تھوڑی رقم بھجوانی شروع کردی، دبئی میں دوستوں نے کچن کا سامان، ڈائننگ سیٹ، کٹلری سیٹ، ڈیپ فریزر اور فریج، ACs وغیرہ بھجوا دیئے۔ جب ہم دو سال بعد گئے تو یہ تیار تھا۔ عبدالرحمن کو ہم نے اسلام آباد بلا کر اس کا ہیمارئڈکا آپریشن کرادیا اور چند ہفتہ مہمان رکھ کر پاکستانی کھانے بنانا سکھا دیئے۔ اس نے تقریباً 20 خاندانوں کی سرپرستی لے لی اور آہستہ آہستہ کمروں کی تعداد 32 کرلی، کافی شاپ بنالی۔ پہلے ہم اس کو پاکستان سے مسالاجات روانہ کردیتے تھے بعد میں حکومت کی پابندی کی وجہ سے ہم نے اپنے پیارے دوست عبدالحمید ابولفاروق سے کہہ کر ریاض، سعودی عرب سے بھجوانا شروع کردئیے اور حمید بھائی ہر سال یہ چیزیں اس کو روانہ کردیتے ہیں۔ سیاح پاکستانی کھانے بے حد پسند کرتے ہیں۔ یہ وہی ہوٹل ہے جس کے بارے میں ہمارے جی ٹی روڈ جنرل مشرف نے الزام لگایا تھا کہ میں نے دس ملین ڈالر کا ہوٹل کھولا ہے۔ اس پر کئی امریکن و یورپین جرنلسٹوں اور ہمارے اپنے سینئر صحافی جناب شاہد الرحمن صاحب نے اپنے ایک جاپانی دوست کے ساتھ جاکر حقیقت سے پردہ اُٹھا دیا تھا۔ عبدالرحمن اب بھی دو تین ہفتوں میں فون کرکے خیریت دریافت کرتا رہتا ہے اور میں اسے ایک بہترین، قابل، نیک غیرمعمولی شخصیت اور بہترین، مخلص دوست سمجھتا ہوں۔
اب واپس’ غیرمعمولی شخصیات سے ملاقاتوں‘ کے بارے میںکچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ تقریباً 30 مختلف ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سیاحی کے عاشق لوگوں نے ایک ہی موضوع یعنی خاص مسلمان لوگوں سے اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ انھوں نے اس بے بنیاد پروپیگنڈہ کی نفی کی ہے ہر مسلمان مذہبی جنونی، دہشت گرد اورخودکش حملہ آور ہے ۔
ایڈیٹرز نے ایسے غیرمعمولی مسلمان شخصیتوں کا چنائو کیا ہے جن کو لوگ ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد رکھتے ہیں اور جو آج بھی لوگوں کی زندگی پر مثبت اثرات رکھتے ہیں۔ اس سلیکشن میں نہ ہی کوئی مشہور صدر، انقلابی کرنل یا شہرت کے دلدادہ اساتذہ یا مبلغ لوگ شامل ہیں۔ آپ ان لوگوں کے حوالے سے با آسانی اندازہ کرسکتے ہیں کہ ایڈیٹروں کا اشارہ کن صدور، کن فوجیوں اور کن مبلغوں کی جانب ہے۔ ان کو نظرانداز کرکے ایڈیٹروں نے عام قلی، ڈرائیورز، اسمگلرز، موسیقار، اَساتذہ، مائوں، پڑوسیوں اور ریسٹورنٹ کے مالکوں کو ان کی غیرمعمولی شخصیت کی بنیاد پر چنا اور ان کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔ 
یہ کتاب ایک طرح لوگوں کی اپنی یادداشتیں ہیں ان کی دوستی کے قصے ہیں اور ان واقعات کا ذکر ہے جن واقعات نے ان کی زندگی پر نہ مٹنے والے تاثرات چھوڑے ۔ ان مصنفین نے یہ بتایا ہے کہ تعصب، خودساختہ وہمی شکوک کے برعکس ان کے تجربات کسقدر دلچسپ اور خوشگوار ہیں۔ ان مصنفین میں مراکو سے لے کر ہندوستان تک کے لوگ شامل ہیں۔ 
ان تمام مصنفین کی تحریروں میں ایک چیز نہایت نمایاں ہے اور وہ ہے انسانیت جو کہ مصنفین اور ان لوگوں کے درمیان ہے جن کا ذکر انھوں نے کیا ہے۔ یہاں مذہبی، ثقافتی، مال و دولت کی موجودگی کو بالکل نظرانداز کرکے صرف انسانیت، محبت اور دوستی و میل ملاپ کو خوشنودی کا پیمانہ بنایا گیا ہے۔ یہ کتاب ایک خزینہ اِنسانیت ہے اور تمام پڑھے لکھے لوگوں کو وقت نکال کر اس کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
بشکریہ جنگ

بے لگام میڈیا کا علاج - انصار عباسی JANUARY 29, 2018


معذرت کے ساتھ چیف جسٹس صاحب سے عرض ہے کہ چاہے کتنے ہی سو موٹو نوٹس لے لیں میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی فتنہ انگیزی کا علاج اس طرح ممکن نہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی کی جو حالت ہے اسے اگر روکنا ہے تو متعلقہ اداروں کو مضبوط بنانا ہو گا اور سخت قوانین اور ان کے اطلاق سے ہی میڈیا کو اب تمیز کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے۔ ٹی وی چینلز کی بگاڑ کا تو تعلق ہی عدالتوں سے ہے جو پیمرا کے ہر نوٹس پر خلاف ورزی کرنے والے چینلز کو اسٹے آرڈر دے دیتے ہیں اور یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ میڈیا کی فتنہ انگیزی رکنے کے بجائے مزید زور پکڑتی جا رہی ہے۔ چند روز قبل ایک ٹی وی اینکر کی طرف سے قصور سانحہ میں ملوث سفاک ملزم عمران علی کے متعلق جو ــ’’انکشافات‘‘ کیے گئے اور جن کے بارے میں اکثر ٹی وی چینلز اور اینکرز کا خیال ہے کہ یہ fake news ہے، اس پر جو ردعمل آیا اُس سے ایسا محسوس ہوا جیسے یہ کوئی نئی بات ہو۔ حقیقت میں تو ٹی وی چینلز کی یہ روز کی کہانی ہے۔ جھوٹ تو یہاں روز بولا جاتا ہے۔ یہاں تو ایسی ایسی ’’خبریں‘‘ نشر کی جاتی ہیں جن کا سر پائوں نہیں ہوتا، جس کی زبان میں جو آتا ہے وہ بول پڑتا ہے، کسی پر کروڑوں اربوں کی کرپشن کا الزام لگا دو کوئی مسئلہ ہی نہیں، جس کو جی چاہے ملک دشمن بنادو، بھارتی ایجنٹ قرار دے دو کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ انتشار پھیلانا ہے تو ٹی وی چینلز حاضر۔ کسی کی پگڑی اچھالنی ہے تو اینکرز اور ٹی وی اسکرین موجود۔ کسی کو نفرت انگیز تقریر کرنی ہے یا فتنہ انگیز مواد پھیلانا ہے تو اُس کے لیے بھی میڈٖیا کے دروازے کھلے ہیں۔ کہیں سے کوئی کاغذ مل جائے، بے شک جعلی ہو بغیر تصدیق کیے اُسے دستاویزات کا درجہ دے کر ٹی اسکرین پر چلا کر جس کا دل چاہے مٹی پلید کر دیں۔ کوئی خیال نہیں کیا جاتا کہ ایسی صحافت سے ملک و قوم کا کتنا نقصان ہو سکتا ہے، کسی کی جان جا سکتی ہے، تشدد ہو سکتا ہے۔ حالات تو اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ اسلامی شعائر کے خلاف تک بات کی جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ فکر ہے تو بس ریٹنگ کی۔ جہاں خلاف ورزی بڑی ہو اور عوامی ردعمل آ جائے تو پیمرا متعلقہ چینلز کو نوٹس بھیجتا ہے لیکن تقریباً ہر نوٹس کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے...... عدالتی اسٹے آرڈر۔ کتنا ہی بڑا جرم کوئی چینل کر دے، خلاف ورزی کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو، پیمرا کے ہر ایکشن کا توڑ عدالتی اسٹے آرڈر اور یہی اسٹے آرڈر اب مادر پدر آزاد اور فتنہ انگیز میڈیا کا سب سے بڑا سہارا بن چکا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی اس بات کا ذکر کر چکا ہوں، اسٹے آرڈرز نے اگر ایک طرف پیمرا کی رٹ کو برباد کر دیا ہے تو وہیں یہ بیماری اس حد تک سنگین صورت حال اختیار کر چکی ہے کہ میرے ایک کالم پر چیف جسٹس کی طرف سے بے حیائی پھیلانے پر ایک چینل کے خلاف سوموٹو ایکشن لیا جس کے خلاف متعلقہ چینل نے ایک ہائی کورٹ سے اسٹے لے لیا اور یوں چیف جسٹس کے سوموٹو کے باوجود پیمرا کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ اس وقت بھی پیمرا کو پانچ سو سے زیادہ عدالتی کیسوں کا سامنا ہے۔ اس حالت میں پیمرا کیسے بے لگام میڈیا کو ریگولیٹ کر سکتا ہے۔ میری چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ اگر اس بے لگام مادر پدر آزاد میڈیا کو کنٹرول کرنا ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے عدالتی اسٹے آرڈرز کی بیماری کا علاج کیا جائے تاکہ پیمرا کی رٹ قائم ہو سکے۔ ایک دو چینلز اور چند ایک اینکرز پر اگر پیمرا خلاف ورزی کرنے پر پابندی لگا دے تو پھر دیکھیے کہ یہ چینلز کیسے سدھرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہاں ہتک عزت کے قانون کو موثر بنانا ہو گا۔ جھوٹی خبروں اور غلط الزامات پر اخبارات اور چینلز کو بھاری جرمانے ہونے چاہیے۔ ہمارے ہاں تو اس قانون کی حیثیت ہی کچھ نہیں۔ نہ قانون میں کوئی جان ہے اور نہ ہی عدالتیں ان کیسوں کا سالہہ سال تو کیا دہایوں میں بھی فیصلہ نہیں کرتی۔ اس بارے میں بھی چیف جسٹس کا کردار بہت اہم ہو گا۔ کسی ایک صحافی یا اینکر کی بجائے سسٹم کو ٹھیک کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت یا عدلیہ کا یہ خیال ہے کہ میڈیا خود اپنے آپ کو درست کرنے کے لیے کچھ کرے گا تو میری ذاتی رائے میں ایسا ممکن نہیں۔ میڈیا کو ریگولیٹ کیے جانے کی اشد ضرورت ہے ورنہ کل کوئی بہت بڑا نقصان اور تباہی بھی ہو سکتی ہے۔
بشکریہ جنگ

جرائم کی تشہیر - مفتی منیب الرحمٰن (زاویہ نظر )



ہمارا گھرانا پانچ افراد پر مشتمل ہے، میرے علاوہ میری بیوی، بیوہ بہو، دس سالہ پوتا اور چھ سالہ پوتی شامل ہیں۔ ٹیلی ویژن پر بچے عام طور پر کارٹون دیکھتے ہیں اور بڑے خبریں وغیرہ دیکھ لیتے ہیں۔ کل میں اندرونِ ملک سفر سے رات دیر گئے گھر واپس پہنچا۔ میں نے ٹیلی ویژن کا ریموٹ ہاتھ میں لیا کہ کچھ تازہ خبریں اور ٹِکرز وغیرہ دیکھ لوں تو میری بیوی نے کہا کہ کچھ دنوں کے لیے ٹی وی بند کر دیں اور ریموٹ بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔ میں نے پوچھا: کیا بات ہے؟، انہوں نے بتایا: محمد انیس الرحمن آج پوچھ رہا تھا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کیا ہوتی ہے؟‘‘۔ یہ اس لیے ہو ا کہ قصور میں رونما ہونے والے واقعات کے حوالے سے تقریباً تین ہفتوں سے ٹیلی ویژن چینلز میں سنسنی خیزی کا مقابلہ چل رہا ہے اور کسی طور ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ مزید یہ کہ ہماری ساری خرابیوں کا سبب یہ بتایا جا رہا ہے کہ سکولوں میں جنسی تعلیم نہیں دی جا رہی، لہٰذا ترقی یافتہ قوموں کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے نصابِ تعلیم کو جنسیات سے آلودہ کرنا ضروری ہے۔
یقینا ہمارے میڈیا مالکان اور کارکنا ن کے علاوہ پاکستان کے کروڑوں گھرانوں میں آٹھ سے بارہ سال تک کے بچے ہوں گے اور خون کو گرمانے والی ان خبروں کو وہ بھی سنتے اور دیکھتے ہوں گے اور ان کے ذہنوں میں بھی طرح طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہوں گے، کیونکہ گھروں میں ٹیلی ویژن سیٹ عام طور پر کامن روم یعنی عام نشست گاہ میں ہوتا ہے اور سب چھوٹے بڑے بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے ہیں اور بالخصوص حالاتِ حاضرہ سے متعلق خبریں دیکھتے ہیں۔ بعض مؤقر کالم نگاروں نے لکھا ہے کہ فحاشی کے مناظر کی تصاویر و ویڈیوز بنائی جاتی ہیںاور پھر ان کے ذریعے شرفا کے خاندانوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے، مزید یہ کہ ان تصاویر اور ویڈیوز کے عالمی فحاشی کی مارکیٹ میںمنہ مانگے دام ملتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جنسی جرائم پیشہ لوگ اتنے بااثر اور عالمی روابط کے حامل ہیں؟
گزشتہ دنوں پیمرا نے ٹیلی ویژن چینلز کے نام ایک ہدایت نامہ جاری کیا تھا، اس کی دفعہ چھ میں لکھا ہے ''جرائم کے پروگراموں کی منظر کشی جو کہ جرم کی تشہیر کا باعث ہوں‘‘۔ ظاہر ہے کہ پیمرا ہدایت نامہ تو جاری کر سکتا ہے، لیکن نحیف و نزار پیمرا اس پر عمل درآمد نہیں کرا سکتا۔ انسانیت کے مجرموں کو قرار واقعی بلکہ عبرت ناک سزا دینا اشد ضروری ہے اور اس طرح کے تمام مطالبات درست ہیں، لیکن ''اشاعتِ فاحشہ‘‘ اور سنگین اخلاقی و قانونی جرائم کی تشہیر کے نوخیزاور ناپختہ ذہنوں پر مرتب ہونے والے اثرات کے سدّباب کی بھی کوئی تدبیر ہونی چاہیے۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیامیں اس کا کوئی اہتمام نہیں ہے اور انتہائی طاقتور الیکٹرانک میڈیا کے سامنے اہلِ اقتدا ر کی بے حِسی اور بے بسی نوشتۂ دیوار ہے۔ نوعمر اورناپختہ ذہن بچے سگریٹ، شیشہ، ہیروئین، کچی شراب اور مشروباتِ خبیثہ کی وبا میں اسی طرح تو مبتلا ہوتے ہیں کہ جب کسی چیز کا ذکر کثرت سے ہو تو فطری تجسّس انہیں یہ جاننے کی طرف مائل کرتا ہے کہ آخر اس میں کشش کیا ہے؟ الغرض پہلا کش یا پہلا گھونٹ اسی کیفیت کو جاننے کے لیے ہوتا ہے، ابتدا میں جرم کے ارتکاب کا یا مجرم بننے کا ارادہ نہیں ہوتا، لیکن بد قسمتی سے یہ وہ بند گلی ہے کہ جس میں داخلے کا راستہ تو ہوتا ہے، واپس بچ کر نکلنے کا راستہ نہیں ہوتا۔
اس لیے میری درد مندانہ اپیل ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر جرائم کی تشہیر یا فواحش کی اشاعت کے سدّباب کا کوئی نہ کوئی اہتمام ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(1) ''بے شک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی کی بات پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ (ہر بات کے انجام کو) جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (النور:19)‘‘، (2) ''وہ (شیطان) تمہیں برائی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسی بات کہو ،جس کو تم نہیں جانتے۔ (بقرہ:169)‘‘، (3) ''لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: بے شک تم بے حیائی کا کام کرتے ہو، جو تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نے نہیں کیا، کیا تم مردوں سے شہوت پوری کرتے ہو اور راہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلس میں برا کام کرتے ہو۔ (العنکبوت:29)‘‘۔
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی نے لکھا ہے ''فاحشہ انتہائی قبیح فعل کو کہتے ہیں‘‘، حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے ''ہر وہ برا کام جس پرشریعت نے کوئی حد مقرر نہ کی ہو''سُوئ‘‘ ہے‘‘۔ ابن جریر طبری نے لکھا ''فحشاء ہر وہ برائی ہے جس کا بیان کرنا اور سننا دونوںقبیح ہوں اور بے حیائی کے زمرے میں آتے ہوں‘‘۔ '' قرآن مجید نے زنا اور قومِ لوط کے فعل پر بھی فاحشہ کا اطلاق کیا ہے‘‘۔
آج کل ہم الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ''اشاعتِ فاحشہ‘‘ کے دور سے گزر رہے ہیں اور اس پر ریاست و حکومت کا تحدید و توازن کا کوئی نظام نہیں ہے اور نہ ہی نظارت یعنی Vigilance کا کوئی نظام ہے۔ بس اس حوالے سے ہم ایک اندھی مسابقت کے دور سے گزر رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں جہاں ''اشاعتِ فاحشہ‘‘ اخلاقی برائی یا قانونی جرم کے زمرے میں نہیں آتی، کم ازکم اتنا اہتمام ضرور ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر فحش فلمیں یا ڈرامے رات گئے اُس وقت چلائے جاتے ہیں جب سکول جانے والے بچے سو جائیں، لیکن ہمارے ہاں چوبیس گھنٹے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
اب تو اردو زبان کی نفاست و لطافت، فصاحت و بلاغت اور ادبیت بھی قصۂ پارینہ بنتی جا رہی ہے، ٹیلی ویژن چینلز کے اینکر پرسنز نت نئے محاورے اور اصطلاحات وضع کر رہے ہیں اور وہی امامُ اللُّغات ہیں۔ چند دن پہلے ایک ادبی کالم نگار کا کالم پڑھنے کو ملا، جس میں وہ اسی طرح کے روز مرّہ اور محاوروں پر تبصرہ فرما رہے تھے، جن سے اردو لغت بورڈ والے محققین بھی آشنا نہیں ہیں، انہیں بھی شاید ان اینکرز پرسنز کی شاگردی اختیار کرنی پڑے مثلاً ''پولیس کی دوڑیں لگ گئیں‘‘ اور ''وزیراعظم کو ماموں بنا دیا‘‘ وغیرہ۔ ہماری عاجزانہ گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ میڈیا مالکان، پالیسی سازوں، پروگرام ڈائریکٹرز اور اینکر پرسنز کے لیے تربیتی نشستوں کا اہتما م ہونا چاہیے، جن میں انہیں وطنِ عزیز کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی اقدار کا شعور دیا جائے اور ماہرینِ نفسیات کا بھی اس میں کوئی نہ کوئی کردار ضروری ہے کہ کسی سانحے، حادثے، وقوعے، خبر یا جرم کو کس طرح پیش کیا جائے‘ کہ ہماری نئی نسل اس کے برے اثرات سے ممکن حد تک محفوظ رہے۔
اسلام نے مقاصدِ شرعیہ میںاخلاقی مفاسد اور جرائم کے سدِّباب کے لیے ''سدِّ ذرائع‘‘ کی حکمت کو اختیار کیا ہے اور اس کی شریعت میں کئی مثالیں موجود ہیں، رسول اللہﷺ نے بعض اوقات دین کی عظیم تر حکمت کی خاطر مستحب اور اَولیٰ کام کو بھی ترک فرمایا ہے، بعض اوقات کسی رخصتِ شرعی پر عمل کرنے میں صحابہ کرامؓ کو تحفظ یا انقباض ہوتا تھا، تو رسول اللہﷺ نے رخصتِ شرعی کی اباحت کے لیے خلافِ اَولیٰ کام بھی کیا اور یہ بحیثیتِ شارع آپﷺ پر واجب تھا، جیسے سفرِ جہاد میں عصر کے بعد سرِعام رمضان کے روزے کو توڑنا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''حلال واضح ہے اور حرام (بھی) واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان مُشتبہ امور ہیں، جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے، سو جو مشتبہ امور سے بچا رہا، اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچا لیا اور جو مشتبہ امور میں پڑ گیا، تواس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ممنوعہ چراگاہ کے ارد گرد اپنے مویشی چرائے۔ پس اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ اس کے مویشی چراگاہ میں گھس جائیں گے، سنو! ہر بادشاہ کی کچھ ممنوعہ حدود ہوتی ہیں، سنو! اللہ کی ممنوعہ حدود اس کے مُحرّمات ہیں، سنو! جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، جب وہ لوتھڑا صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور جب و ہ بگڑ جائے تو سارے جسم کا نظام بگڑ جاتا ہے، سنو! وہ دل ہے (صحیح مسلم:52)۔ آج ہمیں جو مسئلہ درپیش ہے اس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے یہ احتیاطی حکم جاری فرمایا ''جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو انہیں نمازکا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر الگ کر دو۔ (سنن ابوداؤد:495)۔ برائی کے محرّکات سے بچنے کے لیے آپﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے ابنِ آدم پر اُس کے حصے کا زنا لکھ دیا ہے، وہ اسے لازماً پائے گا، پس آنکھ کا زنا (اجنبی عورت کو) دیکھنا ہے اور زبان کا زنا (فحش) باتیں کرنا ہے اور نفس (گناہ کی) تمنا کرتا ہے اور خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اُس کی تصدیق کرتی ہے اور تکذیب کرتی ہے۔ (بخاری:6243)۔ المستدرک للحاکم :3751 میں بعض محرکاتِ زنا کا اضافہ ہے اور وہ یہ ہیں ''غیر محرم کو بوسہ دینا، گناہ کی طرف دست درازی کرنا اور گناہ کی طرف چل کر جانا، سوائے اس کے کہ گناہ میں مبتلا ہونے سے بچ جائے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے ''جولوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں، ماسوا چھوٹے گناہوں کے، بے شک آپ کا رب وسیع مغفرت والا ہے۔ (النجم:32)‘‘۔ یعنی اگرگناہِ کبیرہ کے ان محرِّکات سے آگے بڑھ کر صریح گناہ میں مبتلا نہ ہوا، تو یہ صغیرہ گناہ ہے اور ان پر بھی اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتے رہنا چاہیے۔
بشکریہ  دنیا نیوز

سپریم کی دوڑ - بابر اعوان (وکالت نامہ)



ایک زمانے میں شاہکار فلمیں بنائی جاتی تھیں۔ اس دور کی فلمی ہیروئین سپریم کی دوڑ میں شامل تھیں۔ پھر جمہوریت کا کرنا ایسا ہوا کہ کلچر کی بجائے ولچر آ گیا۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کلچر ثقافت کو اور ولچر گِدھ کو کہا جاتا ہے۔
کچھ سالوں سے قومی اداروں کے درمیان بھی سپریم کی دوڑ جا ری ہے۔ سپریم یعنی نمبر ون کی دوڑ چل رہی ہے۔ اس دوڑ میں پارلیمنٹ، میڈیا، فوج، جج، وکیل، سیاست دان، مجرم اور پولیس شامل ہیں۔ اس لیے نمبر ایک کی دوڑ کھیلتے کھیلتے یہ قومی کھیل بن چکا ہے۔ ایک ایسا کھیل جسے ملا کھڑا بھی کہا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے ''ملاکھڑا‘‘ دیکھ رکھا ہے اُنہیں معلوم ہے کہ یہ دیسی کشتی کا واحد نمونہ ہے جس میں مخالف کی شلوار اور کمربند پر ہاتھ ڈال کر کشتی جیتنے کی اجازت ہوتی ہے۔ میں نے وکالت کا شعبہ 80 کے عشرے میں جوائن کیا تھا۔ اس لیے نمبر ایک کی دوڑ میں شامل شعبۂ وکالت کا ذکر سب سے پہلے کرتا ہوں۔ وکیل کی عظمت کا یہ حال ہے کہ چیف جسٹس ہوں یا چیف ایگزیکٹو، معروف صحافی ہو یا مشہور ٹائیکون، چھوٹو گینگ ہو یا موٹو گینگ، مجرم چوہے کے سائز کا ہو یا ہاتھی جتنا۔ سٹریٹ کرائم والا ہو یا بنارسی ٹھگ۔ چاہے یا نہ چاہے‘ جب بھی پکڑا جائے، وکیل کا ہی دروازہ کھٹکھٹائے۔ پوٹھوہاری زبان میں ایک مثل مشہور ہے:
تاپے تڑکائیاں...میاں فَضلے کول آئی آں
اور تو اور اپنے شغلِ اعظم، ڈالر بادشاہ، کنگ آف ریال اور اللہ کے فضل وکرم سے آزاد عدلیہ کے ہاتھ سے صادق اور امین کا تمغہ چھیننے والے کو بھی آخرکار اپنی وکالت کے لیے میاں فَضلے ڈھونڈنے پڑ گئے۔ ابھی تاپ چڑھ ہی رہا ہے کہ ظلِ الٰہی کو لگ پتا گیا، وکیل بڑی بڑی فیس لیتے ہیں۔
قائداعظم ثانی پر ایک اور کشف بھی ہوا کہ اپنے غم خوار ریٹائرڈ جج بٹالین کے کہنے پر جو زبان موصوف بولتے ہیں وہ بابا رحمتے کو سمجھ نہیں آتی۔ اُس کے لیے جج نہیں وکیل کرنا پڑتا ہے۔ اِن دنوں پروفیشنل وکیل کے طور پر مجھے ایک با ر پھر ڈر سا لگ رہا ہے۔ جس کی وجہ بڑے بڑے جج صاحبان کے ریمارکس ہیں۔ کہیں کہا گیا کہ ڈیڑھ لاکھ وکیل عدلیہ کی فوج ہیں۔ ایک دوسری عدالت میں میری موجودگی میں یہ ریمارکس آئے کہ وکیلوں کی تحریک نہ چلتی تو ہم آج یہاں نہ بیٹھے ہوتے۔ میں اُس ''نوکری بچائو‘‘ انعامی سکیم کا کھلا مخالف تھا۔ آن ریکارڈ مخالف۔ اس مخالفت کی وجہ ایک اصولی مؤقف بنا کہ جج کسی کا دوست نہیں ہو سکتا لہٰذا وہ کسی کا دشمن کیسے ہو گا۔ مُنصف کے حق یا مخالفت میں نعرے لگانا درست نہیں۔ جب تک انعامی سکیم والی تحریک نہیں چلی تھی‘ تب تک وکلا گردی کا لفظ ایجاد نہ ہوا تھا۔ اب مختلف قسم کی اصطلاحات انصاف کے مندروں میں ہر روز پرشاد کی طرح استعمال ہوتی ہیں۔ دسمبر، جنوری کی سردیوںاور جون جولائی کی گرمیوں میں کالی ٹائی، کالی جرابیں، کالی پتلون اور کالا کوٹ پہن کر ٹین کی چھت والے پھٹّے پر بیٹھا ہوا وکیل اسی انعامی سکیم کی برکت کے وجہ سے ''غنڈہ‘‘ کہلایا۔ پچھلے 15 دن کے دوران مَیں ملک کی تین ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کراچی کی رجسٹری میں پیش ہوا۔ ایک صاحب نے وکیل کی بحث سننے سے انکار کیا، اور ساتھ ہی کہا کہ اُوپر چلے جائو اور شکایت لگائو کہ میں نے تمہاری بحث نہیں سننی۔ دوسری جانب دو سپریم ادارے آج کل شیر و شکر ہو گئے ہیں: عدلیہ اور مقننہ۔ ہمارے ایک سابق چیف جسٹس جمالی صاحب نے پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا سے خطا ب کرنے کا اعزاز حاصل کیا جبکہ جوابِ آں غزل کے طور پر سینیٹ کے چیئرمین کامریڈ رضا ربانی نے چیف جسٹس ثاقب نثا ر سے ملاقات کر کے ادارہ جاتی سکور برابر کر دیا۔ ہمارے پاس آپ کو سنانے کے لیے اس ملاقات کی کوئی بریکنگ نیوز نہیں ہے لیکن یہ با ت ریکارڈ پر ہے کہ چیف جسٹس صاحب تقریباً ہر ہفتے پارلیمنٹ کو سپریم کہہ کر اُسے نمبر ون کی دوڑ میں فاتح قرار دے رہے ہیں، لیکن بے چا ری پارلیمنٹ اس فتح کو مذاق سمجھتی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے پچاس، باون سال کی لالی وڈ ہیروئین مارننگ شوز میں ایک دوسرے کو ہیروئین قرار دینے پر اصرار کرتی ہیں۔ پارلیمنٹ کہتی ہے کہ ملک کی اصل طاقت کسی ''خفیہ ہاتھ‘‘ کے ہاتھ میں ہے۔ کون سا ہاتھ‘ یہ بتانے کی ہمت کسی پارلیمنٹیرین میں ہے نہ ہی کسی سپیکر اسمبلی میں۔ ذرا ملک کی ایگزیکٹو اتھارٹی کا بھی سن لیں۔ جس کا آفیشل سربراہ کہتا ہے کہ اصلی وزیراعظم یعنی چیف ایگزیکٹو نمبر ون‘ نااہل شریف ہی ہے۔ جبکہ مجھے کیوں نکالا کی گردان کرنے والے چیف ایگزیکٹو کا کہنا ہے جب سے میں نکلا ہوں ملک برباد ہوگیا، معیشت نیچے گرِ گئی، ترقی کا سفر رُک گیا، پاکستان ساری دنیا میں بدنام ہو گیا۔ یہاں بھی ایوانِ عدل کی طرح نمبر ون کا فیصلہ ففٹی ففٹی ہی لگتا ہے، لیکن ایک نکتے پر نااہلی زدہ وزیراعظم اور ایل این جی فیم وزیراعظم آپس میں متفق ہیں اور وہ نکتہ یہ ہے کہ اہل وکیلوں کو جج لگا دیا جائے۔ کسی زمانے میں شہید بی بی صاحبہ سے ایک صحافی نے چیف جسٹس کی اہلیت کے بارے میں سوال پوچھا۔ شہید بی بی نے یہ معصومانہ جواب دیا: جہانگیر بدر بھی تو چیف جسٹس لگ سکتے ہیں۔ اس لیے کوئی پوٹھوہاریہ یا ہزاریہ، یہ بھی تجویز کر سکتا ہے کہ نااہلی زدہ وزیراعظم اپنے سمدھی کے علاقے سے اور وزیراعظم اپنے سسرالی علاقے سے‘ سید ظفر علی شاہ ایڈووکیٹ کا نام متفقہ طور پر تجویز کر دیں یا شیخ رشید ایڈووکیٹ کا۔
جب سے آزاد میڈیا کے آزاد اینکر زخواتین و حضرات نے ریٹنگ کی میراتھن شروع کی ہے تب سے تمام صحافتی ادارے ریٹنگ کے سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔یہ ریٹنگ بھی بڑی عجیب چیز ہے۔ مل جائے تب مصیبت نہ ملے تب مصیبت۔ میڈیا ہی نہیں میڈیا کے کیمروں کے سامنے آنے والا ہر اداکار ریٹنگ کا طلب گار ہے۔ دو بھائیوں کی جوڑی بھی اس میں پیچھے نہیں۔ ایک بھائی کبھی تقریر کرتے کرتے مائیک گرا کر ریٹنگ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرا پٹاخے کی آواز سننے سے ڈرنے کا ڈرامہ دہراتا ہے۔ قصور کی مظلوم زینب کے خلاف ہونے والی واردات نے ریٹنگ کے سارے ڈنڈے توڑ کر رکھ دئیے۔ اسی لیے مجرم پیچھے رہ گئے اور بریکنگ نیوز آگے نکل گئی۔ جس کسی کو دیکھو وہ کیمرہ مائیک اور قلم پکڑ کر تفتیشی افسر کا کردار ادا کر رہا ہے۔ کس کی بات پر یقین کیا جائے کس کو نظر انداز کر دیا جائے کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ تفتیش کی ایک ایسی منڈی لگی ہوئی ہے کہ جس میں اتنا شور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہ اسی ٹیکنالوجی کی ترقی کا کمال ہے کہ مجرم اور تفتیشی سے پہلے جرم کی تفصیلات، جائے واردات اور خفیہ دستاویزات بریکنگ نیوز میں شامل ہو جاتی ہیں۔ کبھی خودبخود اور کبھی ازخود ۔ 
شمع روشن ہوئی محفل میں پتنگے ناچے 
واہ رے تہذیب تیری بزم میں ننگے ناچے
 بشکریہ دنیا

نا اہلی کی مدت‘ الیکشن اور اداروں سے محاذ آرائی - کنور دلشاد (ریڈزون سے)



اثاثے چھپانا بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے‘ نواز شریف کیس میں یہ فیصلہ ہو چکا۔ اب یہ طے ہونا باقی ہے کہ نااہل کتنی مدت کے لئے ہے، ایک سال کے لئے، پانچ سال کے لئے یا تاحیات! سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت کسی بھی رکن پارلیمنٹ کی عوامی عہدہ سے نااہلیت کی مدت کا تعین کیسے کیا جائے گا۔ عدالت اس حوالے سے جو بھی فیصلہ دے گی‘ آئندہ وہی قانون تصور ہوگا۔ فی الحال یہ معاملہ حل طلب ہے۔ مدعی کے وکلاء آئین کے آرٹیکل (1) 63 اور آرٹیکل (1) 62 ایف کو پیشہ ورانہ مہارت سے خلط ملط کر رہے ہیں وہ جن ارکانِ پارلیمنٹ کی نااہلی کا حوالہ دے رہے ہیں‘ عدالت نے انہیں 62 (ون ایف) کے تحت نااہل قرار نہیں دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جمشید دستی اور افتخار چیمہ ضمنی انتخاب کے ذریعے دوبارہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئے۔ اس طرح آئین کے آرٹیکل 62 ون (ایف)‘ 1950 اور 1958 کے ایپڈو قوانین سے مشابہ ہے۔ جب پاکستان کے مشہور معروف سیاستدانوں کو ان قوانین کے تحت عوامی عہدہ کے لئے ایک خاص مدت تک نااہل قرار دے دیا تھا۔ اس ضمن میں حسین شہید سہروردی اور میاں ممتاز محمد خان دولتانہ قابل ذکر ہیں اور ان کی نااہلیت دس سال کیلئے تھی اور میاں ممتاز دولتانہ 1968ء میں سیاست میں دوبارہ متحرک ہو گئے اور پاکستان مسلم لیگ کونسل کے سربراہ منتخب ہوئے۔ انہوں نے 7 دسمبر 1970ء کے قومی انتخابات میں حصہ بھی لیا تھا۔ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ ایپڈو کے قانون سے اس قدر ہراساں تھے کہ جب پاکستان مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن‘ جس کا میں صدر تھا، نے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے اعزاز میں لاہور میں 24 نومبر 1966ء کو عشائیہ دیا تو انہوں نے میرے اصرار کے باوجود اس عشائیہ میں شرکت سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایپڈو کے تحت وہ کسی بھی سیاسی تقریب میں شرکت کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ میں نے ان کو باور کرایا کہ یہ سیاسی تقریب نہیں ہیں، ہم نے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی قومی خدمات کے اعتراف میں ان کو مدعو کیا ہے۔ وہاں کسی قسم کی سیاسی تقاریر نہیں ہوں گی۔ میری یقین دہانی پر مسٹر ممتاز محمد خاں دولتانہ اس تقریب میں شریک ہوئے اور ان کی فائل فوٹو 24 نومبر 1966ء کے بعض جریدوں میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل (I)62(ایف) پر نطرثانی کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ صرف یہ طے کرنا ہوگا کہ اس آرٹیکل کے تحت نااہل کی مدت کتنی ہونی چاہئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اگر 1948ء سے 2018ء تک جائزہ لیا جائے تو نااہلیت کی مدت دس سال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس دوران نااہل اشخاص کو میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کی روایت کو مدِنظر رکھنا چاہئے۔ میاں ممتاز محمد خاں نے جو خطوط مجھے تحریر کئے وہ میرے پاس محفوظ ہیں۔
پاکستان میں جمہوری نظام ایک ہموار منتقلی کی طرف جا رہا ہے جس میں وقت پر سینیٹ انتخابات ہوں گے۔ اگر تینوں صوبوں کی اسمبلیاں بھی تحلیل ہو جائیں تو سینیٹ کے انتخابات مقررہ شیڈول پر کروانے کیلئے آئینی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا۔ اس کیلئے آئندہ انتخابات ہوں گے اور حکومت اپنی مدت پوری کرتی نظر آ رہی ہے۔ اپوزیشن خاص حکمت عملی کے تحت حکومت کو دبائو میں رکھنے کیلئے عوام میں تاثرات پھیلا رہی تھی کہ جنوری کا مہینہ حکومت کیلئے بہت بھاری ہوگا، حکومت چلانا مشکل ہو جائیگا بلکہ شاید حکومت ہی ختم ہو جائے، سینیٹ انتخابات نہیں ہو سکیں گے، وقت سے پہلے انتخابات کی باتیں کی جا رہی ہیں اور ساتھ ہی یہ کہا گیا ہے کہ بھرپور احتجاج کے بعد حکومت نہیں بچ سکے گی مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کیلئے ایک ایک کر کے تمام خطرات ختم ہو رہے ہیں۔ کچھ خطرات اب بھی باقی ہیں مگر اکثر خطرات دم توڑتے نظر آ رہے ہیں۔
بہت سے جمہوری حکمران آئے‘ بہت مقبول‘ ہر دلعزیز‘ ان کے نعرے بھی لگتے ہیں‘ زندہ ہے‘ زندہ ہے لیکن ان کی پالیسیاں‘ان کے نظریات‘ ان کی اپنی جماعتوں اور حکومتوں میں نظر نہیں آتے۔ پاکستان پر کس حکمران کی پالیسیوں اور نظریات نے سب سے زیادہ اثر مرتب کیا‘ مخالفت اور شدید نفرت کے باوجود یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ اس بدقسمت معاشرے میں سب سے زیادہ اثرات نواز شریف کی پالیسیوں کے پائے جاتے ہیں مگر ان کا دور سب سے زیادہ بے نتیجہ رہا ہے۔ گوادر سے لاہور تک نواز شریف کے ہی نقوش قدم دکھائی دیتے ہیں اور یہ اثرات منفی ہیں۔ پاکستان بیس کروڑ انسانوں‘ سات لاکھ کی مضبوط فوج‘ ایٹمی طاقت‘ بے حساب قدرتی وسائل‘ 60 فیصد نوجوان آبادی، انتہائی حساس جغرافیائی حیثیت‘ دشمن ہمسایوں میں گھرا، ایک عالمی طاقت سے محاذ آرا ملک ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس کوئی قدآور شخصیت نہیں جو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو سکے۔ آج ملک فتنوں اور مسابقتوں سے بھرپور دور میں عالمگیر معاشرے میں تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ اسی تناظر میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہونا چاہئے کہ مذہبی‘ دینی جماعتوں کو مرکزی دھارے میں آنے دیں‘ انہیں انتخابات میں حصہ لینے دیں، اس طرح یہ شدت پسندی کے دائرے سے باہر نکل آئیں گی۔ ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن میں حکومت کو مداخلت نہیں کرنی چاہئے اور حالات کا ادراک کرتے ہوئے شہباز شریف نے بھی پیر حمیدالدین سیالوی کے گھٹنے پکڑ کر ان کو منا کر اپوزیشن کے تمام اندیشوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اب تحریک لبیک یارسول اللہؐ نے بھی ختم نبوت کے حوالے سے اپنے مطالبات منوانے کی کوششوں کو پس پشت ڈال کر قومی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اپنی جماعت کو منظم کرنا شروع کر دیا ہے اور عمران خان نے بھی پیر حمیدالدین سیالوی کی قدم بوسی کے لئے جہانگیر ترین کو ان کی درگاہ پر بھجوایا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ سیاسی افق پر نواز شریف ہی بے تاج بادشاہ نظر آ رہے ہیں۔ نواز شریف اپنی پارٹی کے قائد ہیں اور ان کے عقابی رہنماء اپنے اشتعال انگیز بیانوں اور تقریروں میں بین السطور جس شدت کا اظہار کر رہے ہیں اس پر ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ جس طرح اس وقت ریاست کے معاملات چل رہے ہیں‘ وہ بہرحال مزید زیادہ چلنے کے نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ڈالر اپنی انتہائی حد پر آ گیا ہے۔ انرجی کی صورتحال یہ ہے کہ ایک خبر کے مطابق اسلام آباد میں گیس کے بحران کے باعث اکثریت کا گزارا اپنے اپنے علاقوں کے تنوروں پر ہے۔ کرپشن اتنی سنگین ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججز گاڈ فادر اور سسلین مافیا جیسے لفظ استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
بھارت اور افغانستان پاکستان کی سرحد پر گولہ باری کر رہے ہیں۔ ایران اور امریکہ سے تعلقات شدید تنائو پر آ گئے ہیں۔ چین اور اس کا عظیم الشان منصوبہ سی پیک رہ گیا ہے‘ اس پر بھی حال ہی میں اسلام آباد میں چینی قیادت نے سیاسی استحکام کے حوالے سے عدم تحفظ کا اظہار کیا ہے۔ اس سارے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے شیڈول کے مطابق 2018 کے وسط میں انتخابات بھی ہو جاتے ہیں،جن میں ابھی تک کے تمام انتخابی جائزوں اور سرویز کے مطابق مسلم لیگ (ن) ہی کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے (یعنی شریف خاندان کی انتخابی کامیابی کی پشت پر پنجاب میں صوبائی حکومت کی معاونت کیلئے ڈھائی لاکھ پولیس اہلکار شامل ہوں گے) تو ان حالات میں شریف خاندان خاص طور پر نااہل وزیراعظم کے خلاف چلنے والی تلواریں کب تک اپنے نیام میں رہیں گی؟ نظر آ رہا ہے کہ موجودہ فرسودہ سسٹم 2018ء کے الیکشن میں بھی رائج رہے گا؛ تاہم سینیٹ کے الیکشن سے پہلے اس کے ہونے پر شکوک و شبہات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔ شریف برادران نے اپنے 30سالہ اقتدار میں ملک کے ہر ادارے میں اپنے ہم خیال افراد کو مضبوط بنیادوں پر پروان چڑھایا ہے ۔اب نواز شریف اپنی نااہلی کے خلاف جس انداز میں اداروں پر تنقید کر رہے ہیں اس سے یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ ملک کا مستقبل اور اس کی سلامتی جاتی امرا پہنچے گی تو پھر تلواریں نیام سے باہر نہیں آئیں گی؟
 بشکریہ دنیا

وحشتوں کا مارا معاشرہ - مقتدا منصور پير 29 جنوری 2018


کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ بات کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں۔ مسئلہ ایک ہو تو بات کرنا آسان ہوتا ہے۔ مسائل زیادہ ہوں تو ترجیحات کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جب مسائل کا انبار لگا ہو اور جو ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہوں، تو پھر ترجیحات بھی بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔


ایک ایسا معاشرہ جو حکمران اشرافیہ کی بے بصیرتی اور بے اعتنائی، علما اور اہل دانش کی کوتاہ بینی اور انتظامی اداروں کی نااہلی، کرپشن اور بدعنوانی کے باعث ذہنی تشنج، اخلاقی گراوٹ اور سماجی انتشار کا شکار ہوکر زوال آمادگی کی آخری حدود کو چھو رہا ہو، اس میں بہتری کے امکانات وقت گزرنے کے ساتھ محدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ اگر جنم لینے والے کسی مسئلہ کو فوری طور پر سیاسی عزم کے ساتھ حل نہ کیا جائے تو یہ بحرانی شکل اختیار کرکے نئے مسائل کو جنم دینے کا باعث بن جاتا ہے۔ پاکستان میں روزاول سے یہی کچھ ہوتا رہا ہے کہ جنم لینے والے مسائل کو مسلسل ٹالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ جس کی وجہ سے مسائل الجھتے چلے گئے ہیں۔ نتیجتاً وطن عزیز ایک ایسے جنگل میں تبدیل ہوتا چلا گیا، جس میں کمزور کے لیے جینے کی گنجائش مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ کیونکہ یہ ملک ایک ایسے معاشرے میں تبدیل ہوچکا ہے، جہاں نہ قانون کی بالادستی ہے، نہ ہی اس پر عمل درآمد کا کوئی واضح میکنزم۔
آج ملک میں جو کچھ یہاں ہورہا ہے، وہ حکمران اشرافیہ کی ستر برس سے جاری غلط حکمت عملیوں کا شاخسانہ ہے۔ ویسے تو سبھی انتظامی ادارے، نااہلی اور بدعنوانی کے باعث ناقص کارکردگی کی مثال بن چکے ہیں۔ لیکن پولیس کا حال بد سے بدتر کردیا گیا ہے۔ جسے طاقتور سیاسی وانتظامی حلقوں نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر شتر بے مہار بنادیا ہے۔
اسے اس حد تک سیاسی (Politicise) کردیا گیا ہے کہ اپنی ادارہ جاتی حدود سے تجاوز کرنا معمولی بات بن کررہ گیا ہے۔ وہ فیوڈل سیاستدان جو کل تک اپنے انتخابی حلقوں میں پولیس کو مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے، اب بڑے شہروں میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے پولیس کو استعمال کررہے ہیں جب ان کے اس اقدام کی آئینی بنیادوں پر مخالفت کی جائے تو نسلی ولسانی عصبیتیں پھیلا کر عوام کے ایک مخصوص حلقے کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب پولیس ذاتی مفادات کے لیے استعمال ہوتی ہے، تو نہ صرف جرائم پیشہ افراد کو بھی گل کھلانے کی کھلی چھٹی مل جاتی ہے، بلکہ اس میں جرائم پیشہ افراد کو گھس آنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ اس لیے پولیس مقابلوں کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہوگیا ہے۔
آئین پاکستان پولیس مقابلوں کی اجازت نہیں دیتا۔ پولیس کی ذمے داری ہے کہ وہ چھوٹے یا بڑے جرم میں ملوث فرد کو حراست میں لے کر 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ حاصل کرے۔ ریمانڈ کا مقصد جرم کے بارے میں مفصل تفتیش ہے۔ ریمانڈ 7 روز کے لیے ہوتا ہے، جس میں عدالت مزید 7 روز کا اضافہ کرسکتی ہے۔ پولیس کو ملزمان پر صرف اسی وقت گولی چلانے کا اختیار ہے، جب خود اس پر حملہ کیا جائے۔
پاکستان میں پولیس مقابلے کا کلچر سابقہ مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان مرحوم نے متعارف کرایا۔ انھوں نے پنجاب میں طاقتور مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائی کے لیے پولیس مقابلوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان پولیس مقابلوں کی وجہ سے ملک صاحب مرحوم کی پورے ملک میں دھاک بیٹھ گئی۔ جب ان کے ایوب خان سے اختلافات ہوئے اور انھیں گورنری سے سبکدوش کرکے ان کی جگہ جنرل (ر) موسیٰ خان کو گورنر مقرر کیا گیا، تو انھوں نے ملک صاحب مرحوم کے پروردہ بدنام عناصر سے معاشرے کو پاک کرنے کے نام پر نئے پولیس مقابلے شروع کرادیے۔ یوں پولیس مقابلے انتظامی کلچر کی شکل اختیار کرگئے۔
سندھ میں پولیس مقابلے جنرل ضیا کے دور میں شروع ہوئے۔ جب اندرون صوبہ ڈاکوؤں کو ختم کرنے کے لیے پولیس کے اختیارات میں بے پناہ اضافہ کیا گیا۔ کچے کے علاقوں میں پولیس کارروائیوں سے پولیس مقابلوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان پولیس مقابلوں کے بارے میں چند مہینوں کے اندر ہی شکوک و شبہات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ کیونکہ بعض پولیس مقابلے سیاسی مقاصد کی شکل اختیار کرگئے تھے۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ بیشتر ڈکیت بااثر زمینداروں کے پروردہ ہیں، جنھیں وہ اپنے حریفوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں، جب کہ پولیس ایک بااثر زمیندار کی خواہش پر دوسرے زمیندار کے لوگوں کو مارتی ہے۔
اربن سندھ میں پولیس مقابلوں کا سلسلہ 1993ء میں اس وقت کے وزیر داخلہ نصیراﷲ بابر مرحوم نے شروع کرایا۔ 1993ء سے 1997ء کے دوران دو طرح کے واقعات زیادہ سرعت کے ساتھ سامنے آئے۔ ایک نام نہاد پولیس مقابلہ، جس میں کسی علاقے کو گھیر کر سیاسی کارکنوں کو قتل کرکے اسے پولیس مقابلے کا نام دینا۔
دوسرے کارکنوں کو پہلے اٹھا کر انھیں قتل کرنے کے بعد لاش کا کسی ویرانے میں پھینک دیا جانا۔ لیکن ایسے شواہد سامنے نہیں آئے کہ ان کارکنوں نے کسی بھی موقع پر پولیس کے ساتھ اسلحہ کے زور پر مقابلہ کیا ہو۔ اس کا ثبوت وہ دستاویز یا فرد جرم ہے، جس کو بنیاد بناکر نومبر 1996ء میں اس وقت کے صدر مملکت فاروق لغاری نے محترمہ کی دوسری حکومت کو 58(2)B کے تحت برطرف کیا تھا۔ اس دستاویز میں دیگر الزامات کے ساتھ سیاسی کارکنوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں مارے جانے کا الزام بھی شامل تھا۔
ستمبر 2013ء سے اس جماعت کے خلاف تیسرا آپریشن شروع ہوا۔ اس مرتبہ ایک بار پھر سیاسی کارکنوں کو اٹھائے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہزاروں کارکنوں کو مختلف الزامات کے تحت اٹھایا گیا۔ جن پر زیر حراست تشدد کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ اس دوران جو کارکنان جاں بحق ہوئے، ان کی لاشیں ایک بار پھر ویرانوں اور سڑک کنارے ملنا شروع ہوگئیں۔ بیشتر نوجوان کئی برس گزر جانے کے باوجود ہنوز غائب ہیں۔ اس دوران ہزاروں کی تعداد میں جو سیاسی کارکنان گرفتار کیے گئے، ان میں سے ایک فیصد پر بھی کسی سنگین جرم میں ملوث ہونے کے شواہد نہیں مل سکے۔ مگر اس کے باوجود انھیں رہا نہیں کیا جارہا۔
یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ منشیات فروشوں اور مذہبی شدت پسند عناصر نے تو کئی مواقع پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی ٹیموں پر حملہ کیا۔ لیکن ان ساڑھے چار برسوں کے دوران سیاسی کارکنوں کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کسی ٹیم پر حملہ کرنے کے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے۔ جب کہ شہری سندھ کی مقبول جماعت کے خلاف میڈیا ٹرائل کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ خاص طور پر لاہور اور اسلام آباد کے اینکرز آج بھی اربن سندھ کی نمایندہ سیاسی جماعت کے بارے میں جب بھی موقع ملتا ہے، منفی پروپیگنڈا کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
عرض یہ ہے کہ پولیس مقابلے ہوں، یا سیاسی کارکنوں کا غائب کیا جانا، یہ سب غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات ہیں۔ مختلف جرائم میں ملوث افراد کو کسی شکایت یا اطلاع پر گرفتار کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولین ذمے داری ہے۔ لیکن انھیں کسی ماورائے عدالت اقدامات کی اجازت نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر کسی شخص پر ملک دشمن قوتوں سے رابطے یا ملک کے راز دشمن ممالک کو مہیا کرنے کا الزام ہو، تب بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ازخود کوئی کارروائی کرنے کا حق نہیں۔ بلکہ ملنے والے تمام ثبوت اور شواہد عدالت میں پیش کیے جانے چاہئیں۔
عدلیہ ہی یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہے کہ اس شخص سے ملک دشمنی سرزد ہوئی ہے یا نہیں۔ یاد رکھیے ماورائے عدالت اقدامات اور میڈیا ٹرائل ملک اور عوام کی خدمت نہیں بلکہ شہریوں کے مختلف حلقوں اور طبقات کے درمیان نفرتوں کو پروان چڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔ اس عمل سے جس قدر گریز کیا جاتا ہے، ملک کے وسیع تر مفاد میں اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔

ہماری عدالتی تاریخ کا یادگار دن! - آفتاب اقبال پير 29 جنوری 2018


پاکستان کا یبوست زدہ،کرپٹ اور بیمار معاشرہ نہایت تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے اور تبدیلی کے اس عظیم الشان عمل کو تیز تر کرنے میں یہاں کی سپریم کورٹ کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پاناما کیس میں جے آئی ٹی کی تشکیل سے لیکر نوازشریف کی رخصتی تک کے واقعات نے عدالت عظمیٰ کو ملک کا سب سے باوقار ادارہ بنا دیا ہے۔ چنانچہ اب عوام کا اعتماد سپریم کورٹ پر فوج سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں رہا۔ اس کارخیر میں ویسے تو پاناما والے پانچوں ججوں نے خوب حصہ ڈالا مگر اس حوالے سے ہماری قومی تاریخ چیف جسٹس ثاقب نثار کو شاید کبھی فراموش نہ کر سکے۔


ڈاکٹر شاہد مسعود کا معروف ٹی وی شو ہوتا تو دلچسپ ہے مگر ڈاکٹر صاحب گزشتہ ڈیڑھ دو سو سال کی عرق ریزی کے باوجود صحافی نہیں بن سکے۔ آصف زرداری اور نواز لیگی کرپشن پر موصوف نے سیکڑوں پروگرام کرکے لاتعداد اہم انکشافات کیے گو کہ اس کا سہرا ان کے مخبر کے ہی سر ہے جس کا تعلق ایک اہم ادارے سے ہے مگر لوگ پچھلے 2 سالوں سے ڈاکٹر صاحب کو سچ مچ کا صحافی سمجھنے لگ گئے ہیں اور تو اور ڈاکٹر صاحب خود بھی اب اپنے آپ کو نہ صرف ایک دانشور بلکہ سچ مچ کا صحافی سمجھنے لگ گئے تھے مگر پھر اچانک پچھلے ہفتے ان کے اندر کا بچہ جاگ اٹھا جس کے ہاتھ میں کسی احمق نے اُسترا تھما رکھا ہے۔ یہ معصوم بچہ اس اُسترے کے ساتھ ہر آتے جاتے کی حجامت فی سبیل اللہ کرنے لگا اور پھر بدقسمتی سے اپنی بھی کر بیٹھا!
زینب قتل کیس کے ملزم عمران بارے ڈاکٹر صاحب نے جو لرزہ خیز انکشافات کیے ان میں سنسنی تو بہت تھی مگر صداقت کا فقدان رہا۔ الزامات نما انکشافات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب شومئی قیمت سے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی توجہ خواہ مخواہ طلب کر بیٹھے۔ جسٹس صاحب نے فوراً توجہ دی اور فریقین کو بلا لیا۔ پہلے روز ڈاکٹر صاحب نے کافی آئیں بائیں شائیں کی مگر عدالت کو متاثر نہ کرسکے۔ نہ صرف یہ بلکہ اُلٹا پورے کا پورا میڈیا موصوف پر پل پڑا۔ پرانے ٹی وی اینکر تو ویسے ہی عام طور پر ڈاکٹر صاحب کے لتّے لیتے رہتے ہیں، نو آموز اینکروں نے بھی حسبِ توفیق ان پر ہاتھ سیدھا کرنا شروع کردیا۔
معاملے کی سنگینی کے سبب چیف جسٹس صاحب نے اتوار کی چھٹی کے باوجود یہاں لاہور رجسٹری میں عدالت لگالی۔ ان کی سربراہی میں دیگر دو جج صاحبان جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس منظور احمد ملک نے نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ ڈاکٹر شاہد مسعود کا قدرے طفلانہ نکتۂ نظر سنا۔موصوف ہمارے نہایت پیارے دوست ہونے کے باوجود ایک فقرہ بھی ایسا ادا نہ کرپائے کہ جس پر ہم داد دیتے ۔بلکہ ہم بار بار گھوریاں ڈال کر تنبیہ کرتے رہے کہ آپ کے غیر سنجیدہ روئیے سے عدالت کے بظاہر دوستانہ تیور بدلنے لگے ہیں۔
چیف جسٹس صاحب نے اپنی معاونت کے لیے تقریباً درجن بھر سینئر صحافی اور اینکر بھی عدالت میں مدعو کررکھے تھے۔ ہر ایک نے باری باری ڈائس پر آکر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ انتہائی دلچسپ اور صحتمند سلسلہ تھا۔ جج صاحبان کا عمومی موڈ نہایت عمدہ رہا مگر آخر میں زنیب کے والد کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے دو ایک تلخ باتیں کرکے پورے ماحول کو پریشان کن حد تک سنجیدہ کر ڈالا۔
ایک موقع پر عدالتِ عظمیٰ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو معافی کا موقع فراہم کرتے ہوئے دریافت کیا کہ کیا موصوف صدق دل سے معافی کے طلبگار ہیں؟ مگر یہ سن کر کھچا کھچ بھرا کمرئہ عدالت حیران رہ گیا جب ڈاکٹر شاہد مسعود نے بارِ دیگر اپنی بات کی بھرپور ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مقدمہ لڑنے کا اعلان فرمادیا۔ ڈاکٹر صاحب کا کیس کمزور ہے مگر ہم دعا گو ہیں کہ موصوف کہیں نہ کہیں سے تھوڑا بہت مسالہ ضرور حاصل کرلیں بصورتِ دیگر انہیں بیحد خوار ہونا پڑے گا۔
تاہم آج کی واحد بات جو ڈاکٹر شاہد مسعود کے حق میں جاتی محسوس ہوئی، وہ اس کیس میں جی آئی ٹی کی تشکیل نو تھی۔ چیف جسٹس صاحب نے ایف آئی اے والے بشیر میمن صاحب کو اس کا سربراہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ دیگر 2 ممبران کا انتخاب کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ اس لیے ڈاکٹر صاحب بے فکر رہیں کیونکہ اس معاملے میں حکومت پنجاب کو کُھل کھیلنے کی اجازت نہیں ملے گی۔
اس موقع پر آئی جی پنجاب بھی موجود تھے اور انہیں بھی سختی سے تنبیہ کی گئی کہ اگر ملزم عمران کو کچھ ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری اُن پر عائد ہو گی۔ بعض سینئر اینکر ڈاکٹر صاحب کو معافی مانگنے پر آمادہ کرتے رہے مگر انتہائی حیرت انگیزطور پر ڈاکٹر صاحب عدالت کے باہر بھی ثابت قدم رہے۔ اب اس ثابت قدمی کی وجہ کیا ہے، یہ تو ڈاکٹر صاحب ہی جانتے ہیں۔البتہ یہ بات طے ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے آج کے دن کو ہماری عدالتی تاریخ کا یادگار دن بنا ڈالا ہے!!

کیوی پھل جگر کی چربی دورکرنے میں معاون


کولاراڈو: 

طبی ماہرین نے کہا ہے کہ اگر خواتین دوران حمل زائد چکنائی والی غذائیں کھاتی ہیں تو اس سے ان کے بچوں پر مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور ان میں موٹاپا اور جگر پر زائد چربی کا مرض (این اے ایف ایل ڈی) سرِفہرست ہیں۔

ماہرین نے اس کے لیے چوہیا کو کیوی پھل، پپیتے اور اجوائن میں موجود ایک اہم مرکب دیا جس میں پائرولو کیونولائن کائنن (پی کیو کیو) پایا جاتا ہے۔ جب چوہیا کو یہ مرکب کھلایا گیا تو اس سے ان کا دودھ پینے والے بچوں میں این اے ایف ایل ڈی سے بچاؤ نوٹ کیا گیا۔
یونیورسٹی آف کولوراڈو کی ماہر کیرن جونشر اور ان کے ساتھیوں نے اپنی ان تحقیقات کو ایک جرنل ’’ہیپاٹولوجی کمیونی کیشن‘‘ میں شائع کروایا ہے۔
واضح رہے کہ این اے ایف ایل ڈی (Non alcoholic fatty liver disease) کی بیماری میں جگر پر دھیرے دھیرے چربی چڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور صرف امریکا میں ہی 30 سے 40 فیصد افراد اس سے متاثر ہیں جو شراب نوشی نہ کرنے کے باوجود جگر پر چکنائی سے متاثر ہیں۔ آگے چل کر یہ مرض شدت اختیار کرکے جگر کے کئی امراض کی وجہ بنتا ہے۔
اگر مرغن اور چکنائی سے بھرپور غذائیں بے تحاشا کھائی جائیں تو اس سے موٹاپے، بلڈ پریشر، بلند کولیسٹرول اور دیگر امراض جنم لیتے ہیں اور پھر وہ این اے ایف ایل ڈی کی وجہ بنتے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ نہ صرف ہماری غذا کی اپنی اہمیت ہے بلکہ ہماری ماؤں کی غذا بھی اہمیت رکھتی ہے، جب ہم رحمِ مادر میں ہوتے ہیں۔ دورانِ حمل ماں کی غذا کے بچے پر اچھے یا برے دونوں طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ ماں کی غذا کا اثر بچے اور پوتے یا نواسے پر بھی ہوسکتا ہے۔
ماہرین نے کہا کہ کیوی اور پپیتے میں پایا جانے والا مرکب ’پی کیو کیو‘ ایسی چوہیا کو دیا گیا جب وہ حاملہ تھی اور اسے چکنائی سے بھرپورغذا دینے کے باوجود بھی اس کے بچوں میں فیٹی لیور بیماری بہت کم دیکھی گئی۔ پی پی کیو ایک طرح کا اینٹی آکسیڈنٹ مرکب ہے جو جسم کو فری ریڈیکلز سے بچاتا ہے۔ فری ریڈیکلز ڈی این اے اور دیگر خلیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔
کولوراڈو یونیورسٹی کے ماہرین نے کہا ہے کہ جو لوگ جگر پر چربی اور چکنائی کے شکار ہیں وہ تازہ کیوی ضرور کھائیں کیونکہ ان کا دیرپا استعمال جگر کو فعال اور چکنائی سے پاک رکھ سکتا ہے۔

© 2014 101 Ways For Happy Life. WP WELL WISHES converted by Bloggertheme9. Powered by Blogger.