معذرت کے ساتھ چیف جسٹس صاحب سے عرض ہے کہ چاہے کتنے ہی سو موٹو نوٹس لے لیں میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی فتنہ انگیزی کا علاج اس طرح ممکن نہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی کی جو حالت ہے اسے اگر روکنا ہے تو متعلقہ اداروں کو مضبوط بنانا ہو گا اور سخت قوانین اور ان کے اطلاق سے ہی میڈیا کو اب تمیز کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے۔ ٹی وی چینلز کی بگاڑ کا تو تعلق ہی عدالتوں سے ہے جو پیمرا کے ہر نوٹس پر خلاف ورزی کرنے والے چینلز کو اسٹے آرڈر دے دیتے ہیں اور یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ میڈیا کی فتنہ انگیزی رکنے کے بجائے مزید زور پکڑتی جا رہی ہے۔ چند روز قبل ایک ٹی وی اینکر کی طرف سے قصور سانحہ میں ملوث سفاک ملزم عمران علی کے متعلق جو ــ’’انکشافات‘‘ کیے گئے اور جن کے بارے میں اکثر ٹی وی چینلز اور اینکرز کا خیال ہے کہ یہ fake news ہے، اس پر جو ردعمل آیا اُس سے ایسا محسوس ہوا جیسے یہ کوئی نئی بات ہو۔ حقیقت میں تو ٹی وی چینلز کی یہ روز کی کہانی ہے۔ جھوٹ تو یہاں روز بولا جاتا ہے۔ یہاں تو ایسی ایسی ’’خبریں‘‘ نشر کی جاتی ہیں جن کا سر پائوں نہیں ہوتا، جس کی زبان میں جو آتا ہے وہ بول پڑتا ہے، کسی پر کروڑوں اربوں کی کرپشن کا الزام لگا دو کوئی مسئلہ ہی نہیں، جس کو جی چاہے ملک دشمن بنادو، بھارتی ایجنٹ قرار دے دو کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ انتشار پھیلانا ہے تو ٹی وی چینلز حاضر۔ کسی کی پگڑی اچھالنی ہے تو اینکرز اور ٹی وی اسکرین موجود۔ کسی کو نفرت انگیز تقریر کرنی ہے یا فتنہ انگیز مواد پھیلانا ہے تو اُس کے لیے بھی میڈٖیا کے دروازے کھلے ہیں۔ کہیں سے کوئی کاغذ مل جائے، بے شک جعلی ہو بغیر تصدیق کیے اُسے دستاویزات کا درجہ دے کر ٹی اسکرین پر چلا کر جس کا دل چاہے مٹی پلید کر دیں۔ کوئی خیال نہیں کیا جاتا کہ ایسی صحافت سے ملک و قوم کا کتنا نقصان ہو سکتا ہے، کسی کی جان جا سکتی ہے، تشدد ہو سکتا ہے۔ حالات تو اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ اسلامی شعائر کے خلاف تک بات کی جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ فکر ہے تو بس ریٹنگ کی۔ جہاں خلاف ورزی بڑی ہو اور عوامی ردعمل آ جائے تو پیمرا متعلقہ چینلز کو نوٹس بھیجتا ہے لیکن تقریباً ہر نوٹس کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے...... عدالتی اسٹے آرڈر۔ کتنا ہی بڑا جرم کوئی چینل کر دے، خلاف ورزی کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو، پیمرا کے ہر ایکشن کا توڑ عدالتی اسٹے آرڈر اور یہی اسٹے آرڈر اب مادر پدر آزاد اور فتنہ انگیز میڈیا کا سب سے بڑا سہارا بن چکا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی اس بات کا ذکر کر چکا ہوں، اسٹے آرڈرز نے اگر ایک طرف پیمرا کی رٹ کو برباد کر دیا ہے تو وہیں یہ بیماری اس حد تک سنگین صورت حال اختیار کر چکی ہے کہ میرے ایک کالم پر چیف جسٹس کی طرف سے بے حیائی پھیلانے پر ایک چینل کے خلاف سوموٹو ایکشن لیا جس کے خلاف متعلقہ چینل نے ایک ہائی کورٹ سے اسٹے لے لیا اور یوں چیف جسٹس کے سوموٹو کے باوجود پیمرا کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ اس وقت بھی پیمرا کو پانچ سو سے زیادہ عدالتی کیسوں کا سامنا ہے۔ اس حالت میں پیمرا کیسے بے لگام میڈیا کو ریگولیٹ کر سکتا ہے۔ میری چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ اگر اس بے لگام مادر پدر آزاد میڈیا کو کنٹرول کرنا ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے عدالتی اسٹے آرڈرز کی بیماری کا علاج کیا جائے تاکہ پیمرا کی رٹ قائم ہو سکے۔ ایک دو چینلز اور چند ایک اینکرز پر اگر پیمرا خلاف ورزی کرنے پر پابندی لگا دے تو پھر دیکھیے کہ یہ چینلز کیسے سدھرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہاں ہتک عزت کے قانون کو موثر بنانا ہو گا۔ جھوٹی خبروں اور غلط الزامات پر اخبارات اور چینلز کو بھاری جرمانے ہونے چاہیے۔ ہمارے ہاں تو اس قانون کی حیثیت ہی کچھ نہیں۔ نہ قانون میں کوئی جان ہے اور نہ ہی عدالتیں ان کیسوں کا سالہہ سال تو کیا دہایوں میں بھی فیصلہ نہیں کرتی۔ اس بارے میں بھی چیف جسٹس کا کردار بہت اہم ہو گا۔ کسی ایک صحافی یا اینکر کی بجائے سسٹم کو ٹھیک کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت یا عدلیہ کا یہ خیال ہے کہ میڈیا خود اپنے آپ کو درست کرنے کے لیے کچھ کرے گا تو میری ذاتی رائے میں ایسا ممکن نہیں۔ میڈیا کو ریگولیٹ کیے جانے کی اشد ضرورت ہے ورنہ کل کوئی بہت بڑا نقصان اور تباہی بھی ہو سکتی ہے۔
بشکریہ جنگ
0 comments: