ایک زمانے میں شاہکار فلمیں بنائی جاتی تھیں۔ اس دور کی فلمی ہیروئین سپریم کی دوڑ میں شامل تھیں۔ پھر جمہوریت کا کرنا ایسا ہوا کہ کلچر کی بجائے ولچر آ گیا۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کلچر ثقافت کو اور ولچر گِدھ کو کہا جاتا ہے۔
کچھ سالوں سے قومی اداروں کے درمیان بھی سپریم کی دوڑ جا ری ہے۔ سپریم یعنی نمبر ون کی دوڑ چل رہی ہے۔ اس دوڑ میں پارلیمنٹ، میڈیا، فوج، جج، وکیل، سیاست دان، مجرم اور پولیس شامل ہیں۔ اس لیے نمبر ایک کی دوڑ کھیلتے کھیلتے یہ قومی کھیل بن چکا ہے۔ ایک ایسا کھیل جسے ملا کھڑا بھی کہا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے ''ملاکھڑا‘‘ دیکھ رکھا ہے اُنہیں معلوم ہے کہ یہ دیسی کشتی کا واحد نمونہ ہے جس میں مخالف کی شلوار اور کمربند پر ہاتھ ڈال کر کشتی جیتنے کی اجازت ہوتی ہے۔ میں نے وکالت کا شعبہ 80 کے عشرے میں جوائن کیا تھا۔ اس لیے نمبر ایک کی دوڑ میں شامل شعبۂ وکالت کا ذکر سب سے پہلے کرتا ہوں۔ وکیل کی عظمت کا یہ حال ہے کہ چیف جسٹس ہوں یا چیف ایگزیکٹو، معروف صحافی ہو یا مشہور ٹائیکون، چھوٹو گینگ ہو یا موٹو گینگ، مجرم چوہے کے سائز کا ہو یا ہاتھی جتنا۔ سٹریٹ کرائم والا ہو یا بنارسی ٹھگ۔ چاہے یا نہ چاہے‘ جب بھی پکڑا جائے، وکیل کا ہی دروازہ کھٹکھٹائے۔ پوٹھوہاری زبان میں ایک مثل مشہور ہے:
تاپے تڑکائیاں...میاں فَضلے کول آئی آں
اور تو اور اپنے شغلِ اعظم، ڈالر بادشاہ، کنگ آف ریال اور اللہ کے فضل وکرم سے آزاد عدلیہ کے ہاتھ سے صادق اور امین کا تمغہ چھیننے والے کو بھی آخرکار اپنی وکالت کے لیے میاں فَضلے ڈھونڈنے پڑ گئے۔ ابھی تاپ چڑھ ہی رہا ہے کہ ظلِ الٰہی کو لگ پتا گیا، وکیل بڑی بڑی فیس لیتے ہیں۔
قائداعظم ثانی پر ایک اور کشف بھی ہوا کہ اپنے غم خوار ریٹائرڈ جج بٹالین کے کہنے پر جو زبان موصوف بولتے ہیں وہ بابا رحمتے کو سمجھ نہیں آتی۔ اُس کے لیے جج نہیں وکیل کرنا پڑتا ہے۔ اِن دنوں پروفیشنل وکیل کے طور پر مجھے ایک با ر پھر ڈر سا لگ رہا ہے۔ جس کی وجہ بڑے بڑے جج صاحبان کے ریمارکس ہیں۔ کہیں کہا گیا کہ ڈیڑھ لاکھ وکیل عدلیہ کی فوج ہیں۔ ایک دوسری عدالت میں میری موجودگی میں یہ ریمارکس آئے کہ وکیلوں کی تحریک نہ چلتی تو ہم آج یہاں نہ بیٹھے ہوتے۔ میں اُس ''نوکری بچائو‘‘ انعامی سکیم کا کھلا مخالف تھا۔ آن ریکارڈ مخالف۔ اس مخالفت کی وجہ ایک اصولی مؤقف بنا کہ جج کسی کا دوست نہیں ہو سکتا لہٰذا وہ کسی کا دشمن کیسے ہو گا۔ مُنصف کے حق یا مخالفت میں نعرے لگانا درست نہیں۔ جب تک انعامی سکیم والی تحریک نہیں چلی تھی‘ تب تک وکلا گردی کا لفظ ایجاد نہ ہوا تھا۔ اب مختلف قسم کی اصطلاحات انصاف کے مندروں میں ہر روز پرشاد کی طرح استعمال ہوتی ہیں۔ دسمبر، جنوری کی سردیوںاور جون جولائی کی گرمیوں میں کالی ٹائی، کالی جرابیں، کالی پتلون اور کالا کوٹ پہن کر ٹین کی چھت والے پھٹّے پر بیٹھا ہوا وکیل اسی انعامی سکیم کی برکت کے وجہ سے ''غنڈہ‘‘ کہلایا۔ پچھلے 15 دن کے دوران مَیں ملک کی تین ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کراچی کی رجسٹری میں پیش ہوا۔ ایک صاحب نے وکیل کی بحث سننے سے انکار کیا، اور ساتھ ہی کہا کہ اُوپر چلے جائو اور شکایت لگائو کہ میں نے تمہاری بحث نہیں سننی۔ دوسری جانب دو سپریم ادارے آج کل شیر و شکر ہو گئے ہیں: عدلیہ اور مقننہ۔ ہمارے ایک سابق چیف جسٹس جمالی صاحب نے پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا سے خطا ب کرنے کا اعزاز حاصل کیا جبکہ جوابِ آں غزل کے طور پر سینیٹ کے چیئرمین کامریڈ رضا ربانی نے چیف جسٹس ثاقب نثا ر سے ملاقات کر کے ادارہ جاتی سکور برابر کر دیا۔ ہمارے پاس آپ کو سنانے کے لیے اس ملاقات کی کوئی بریکنگ نیوز نہیں ہے لیکن یہ با ت ریکارڈ پر ہے کہ چیف جسٹس صاحب تقریباً ہر ہفتے پارلیمنٹ کو سپریم کہہ کر اُسے نمبر ون کی دوڑ میں فاتح قرار دے رہے ہیں، لیکن بے چا ری پارلیمنٹ اس فتح کو مذاق سمجھتی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے پچاس، باون سال کی لالی وڈ ہیروئین مارننگ شوز میں ایک دوسرے کو ہیروئین قرار دینے پر اصرار کرتی ہیں۔ پارلیمنٹ کہتی ہے کہ ملک کی اصل طاقت کسی ''خفیہ ہاتھ‘‘ کے ہاتھ میں ہے۔ کون سا ہاتھ‘ یہ بتانے کی ہمت کسی پارلیمنٹیرین میں ہے نہ ہی کسی سپیکر اسمبلی میں۔ ذرا ملک کی ایگزیکٹو اتھارٹی کا بھی سن لیں۔ جس کا آفیشل سربراہ کہتا ہے کہ اصلی وزیراعظم یعنی چیف ایگزیکٹو نمبر ون‘ نااہل شریف ہی ہے۔ جبکہ مجھے کیوں نکالا کی گردان کرنے والے چیف ایگزیکٹو کا کہنا ہے جب سے میں نکلا ہوں ملک برباد ہوگیا، معیشت نیچے گرِ گئی، ترقی کا سفر رُک گیا، پاکستان ساری دنیا میں بدنام ہو گیا۔ یہاں بھی ایوانِ عدل کی طرح نمبر ون کا فیصلہ ففٹی ففٹی ہی لگتا ہے، لیکن ایک نکتے پر نااہلی زدہ وزیراعظم اور ایل این جی فیم وزیراعظم آپس میں متفق ہیں اور وہ نکتہ یہ ہے کہ اہل وکیلوں کو جج لگا دیا جائے۔ کسی زمانے میں شہید بی بی صاحبہ سے ایک صحافی نے چیف جسٹس کی اہلیت کے بارے میں سوال پوچھا۔ شہید بی بی نے یہ معصومانہ جواب دیا: جہانگیر بدر بھی تو چیف جسٹس لگ سکتے ہیں۔ اس لیے کوئی پوٹھوہاریہ یا ہزاریہ، یہ بھی تجویز کر سکتا ہے کہ نااہلی زدہ وزیراعظم اپنے سمدھی کے علاقے سے اور وزیراعظم اپنے سسرالی علاقے سے‘ سید ظفر علی شاہ ایڈووکیٹ کا نام متفقہ طور پر تجویز کر دیں یا شیخ رشید ایڈووکیٹ کا۔
جب سے آزاد میڈیا کے آزاد اینکر زخواتین و حضرات نے ریٹنگ کی میراتھن شروع کی ہے تب سے تمام صحافتی ادارے ریٹنگ کے سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔یہ ریٹنگ بھی بڑی عجیب چیز ہے۔ مل جائے تب مصیبت نہ ملے تب مصیبت۔ میڈیا ہی نہیں میڈیا کے کیمروں کے سامنے آنے والا ہر اداکار ریٹنگ کا طلب گار ہے۔ دو بھائیوں کی جوڑی بھی اس میں پیچھے نہیں۔ ایک بھائی کبھی تقریر کرتے کرتے مائیک گرا کر ریٹنگ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرا پٹاخے کی آواز سننے سے ڈرنے کا ڈرامہ دہراتا ہے۔ قصور کی مظلوم زینب کے خلاف ہونے والی واردات نے ریٹنگ کے سارے ڈنڈے توڑ کر رکھ دئیے۔ اسی لیے مجرم پیچھے رہ گئے اور بریکنگ نیوز آگے نکل گئی۔ جس کسی کو دیکھو وہ کیمرہ مائیک اور قلم پکڑ کر تفتیشی افسر کا کردار ادا کر رہا ہے۔ کس کی بات پر یقین کیا جائے کس کو نظر انداز کر دیا جائے کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ تفتیش کی ایک ایسی منڈی لگی ہوئی ہے کہ جس میں اتنا شور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہ اسی ٹیکنالوجی کی ترقی کا کمال ہے کہ مجرم اور تفتیشی سے پہلے جرم کی تفصیلات، جائے واردات اور خفیہ دستاویزات بریکنگ نیوز میں شامل ہو جاتی ہیں۔ کبھی خودبخود اور کبھی ازخود ۔
شمع روشن ہوئی محفل میں پتنگے ناچے
واہ رے تہذیب تیری بزم میں ننگے ناچے
بشکریہ دنیا
0 comments: